پاکستان میں حالیہ دنوں میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کے باعث مہنگائی کی نئی لہر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت ریکارڈ 169 روپے 90 پیسے تک پہنچ گئی تھی۔ البتہ بدھ کو 70 پیسے کی کمی کے ساتھ ڈالر 169 روپے 20 پیسے میں ٹریڈ ہوتا رہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قیمت میں گراوٹ کی بڑی وجہ پاکستان کے درآمدی بل میں اضافہ ہے۔
کرنسی ڈیلرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کی قیمت روکنے کے لیے مارکیٹ میں مداخلت نہ کی تو ڈالر مزید مہنگا ہو جائے گا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے امپورٹرز نے بھی ڈالر کی پیشگی بکنگ کرانا شروع کر دی ہے جس سے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ گئی ہے۔
روپے کی قیمت گرنے کی بڑی وجہ کیا ہے؟
تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ایک ماہ کے دوران سوا چھ ارب ڈالرز کی ریکارڈ درآمدت ہیں۔
اُن کے بقول اس کے مقابلے میں برآمدات محض دو سے سوا دو ارب ڈالرز کی ہیں جس کی وجہ سے چار ارب ڈالرز کا تاریخی خسارہ دیکھنے میں آیا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کرنسی ایک کموڈٹی (اجناس) کی طرح ہوتی ہے۔ ہم نے دنیا سے جتنی درآمدات کرنی ہے اس کے لیے ڈالرز درکار ہیں اور جو ہم برآمد کرتے ہیں اس کے لیے ہمیں ڈالرز موصول ہوتے ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ڈالر کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے اورسپلائی بہت کم ہے۔
افغانستان کی غیر یقینی صورتِ حال روپے کی قدر میں کمی کی وجہ؟
اُن کے بقول روپے کی قدر میں کمی کی ایک اور وجہ افغانستان کی غیر یقینی صورتِ حال ہے۔ امریکہ پانچ سے چھ بلین ڈالرز افغانستان کو دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر عالمی ادارے بھی افغانستان کی معیشت کو سپورٹ کر رہے تھے۔
فرخ سلیم کے بقول افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت کے ذریعے ڈالرز پاکستان آتے تھے۔ لیکن طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد آئی ایم ایف اور امریکہ کی طرف سے ریزروز منجمد ہونے سے سارا دباؤ پاکستان پر آ گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کے قبضے سے قبل روزانہ پانچ سے سات ملین ڈالرز پاکستان آتے تھے مگر اب پاکستان سے روزانہ پانچ سے سات ملین ڈالر افغانستان جا رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کی درآمدات بھی بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے صورتِ حال خراب ہو گئی ہے۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے موجودہ صورتِ حال میں اپنے ریزرو سے 1.23 ارب ڈالرز مارکیٹ میں شامل کیے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم نہیں ہو سکی۔
فرخ سلیم کے مطابق اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے اہم اجلاس ہیں جن میں پاکستان کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں جب کہ اکتوبر میں افغانستان کی صورتِ حال بھی مزید واضح ہو گی۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ اس وقت افغانستان کی صورتِ حال بہتر کرنے اور برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ اگر اسٹیٹ بنک کرنسی کی قیمت کو سہارا دینے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتا ہے تو اس سے معاشی ترقی کے اہداف متاثر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بعض درآمدات ایسی ہیں جن کو روکا نہیں جا سکتا جیسے پیٹرولیم یا گندم ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیں ہر حال خریدنی ہیں۔ البتہ حکومت کو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔
فاریکس ڈیلرز ایسویسی ایشن کے ملک بوستان بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان کی بڑی وجہ افغانستان کی موجودوہ صورتِ حال کو قرار دیتے ہیں۔
ملک بوستان کہتے ہیں کہ افغانستان کا مکمل دارومدار پاکستان پر ہے۔ ایک ماہ میں پاکستان کا بل ایک ارب ڈالر بڑھا ہے۔ ماضی میں چند ملین کا فرق آتا تھا لیکن ایک ارب ڈالر بڑھ جانا حیرت انگیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ امپورٹ کے لیے اس وقت ڈالر کی ڈیمانڈ تقریباً تین سو ملین ڈالر ہے جبکہ زرِمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات کے ذریعے دو سو ملین ڈالر آ رہے ہیں۔ ایسے میں سو ملین ڈالر روزانہ کا فرق صورتِ حال کو خراب کر رہا ہے۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے لوگ ڈالرز کی خریداری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
ڈالرز کی اسمگلنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈالر اسمگل نہیں ہو رہا لیکن ماضی میں وہاں سے ڈالر بہت زیادہ آتا تھا اب یہاں سے جا رہا ہے لیکن یہ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہے۔
ملک بوستان نے کہا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ لگژری مصنوعات کو درآمد روک دی جائے۔
اُن کے بقول حکومت نے دو ارب ڈالر مالیت کے موبائل فون منگوا لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ڈیوٹیز جمع کرنے کے لیے نو ہزار گاڑیاں امپورٹ کی گئیں۔ ان سب کی ادائیگی ڈالر میں ہوئی۔ یہاں ہمیں گندم خریداری کے لیے مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی سے ڈالر کی اُڑان کو روکا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈالر کی موجودہ قیمت تاریخ میں سب سے زیادہ ہے اور میرے خیال میں اگر اس کی قیمت میں اضافہ ہوا تو مہنگائی میں شدید اضافہ ہو گا۔
واضح رہے کہ رواں مالی سال کے آغاز سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 12 روپے سے زائد کم ہو چکی ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے پاکستان کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ رہا ہے۔