اس وقت پوری دنیا کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ پہلے کرونا کی وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں پر منفی اثرات ڈالے اور ابھی دنیا ان اثرات سے نکلنے کی جدوجہد ہی کر رہی تھی کہ یوکرین پر روسی حملے اور اس جاری جنگ نے معیشتوں کو ایک بار پھر ہدف بنایا۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے علاوہ تقریباً دنیا کے ہر حصے ہی میں اشیاء صرف کی قیمتوں میں روز بروز ہوتے اضافے نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں، خاص طور پر غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان بھی ان ہی ملکوں میں شامل ہے جہاں معاشی حالات پہلے ہی خراب تھے۔ لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت نے تیل اور بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کو جو بقول اس کے ریلیف دیا ہے۔ جس کے متعلق بعض ماہرین کے مطابق اس سے پاکستان کی معیشت پر مزید دباؤ آئے گا اور آنے والے دن اور زیادہ سخت اور مشکل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر سیاسی طور پر جو بے یقینی کی صورت ہے وہ ممکنہ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات کیسے رہیں گے۔ اس بارے میں ماہرین معاشیات متنوع خیالات رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ایوب مہر اقراء یونیورسٹی کے پروفیسر اور سارک چیمبر آف کامرس کے اکنامک ایڈوائزر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جو ریلیف پیکیج دیا گیا ہے اور جو اقتصادی فیصلے کیے جارہے ہیں، وہ نہ تو عالمی معاشی منظر نامے کے لحاظ سے اور نہ ہی قومی معاشی منظر نامے کےاعتبار سے مناسب ہیں۔ ان سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہو گا اور آنے والے دنوں میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اس پر یقینًا رد عمل ظاہر کرے گا کیونکہ اس کی طرف سے جو شرائط قرضے کے لیے رکھی گئ تھیں ان پر عمل کے بجائے ان کے خلاف اقدامات کیے گئے ہیں۔ لیکن پاکستان چونکہ اس کے قرض کی قسطوں میں سے پانچ اقساط پہلے ہی لے چکا ہے اور اب چھٹی قسط نومبر میں ملنی ہے تو حکومت کے پاس ابھی سات آٹھ مہینے کا وقت ہے۔ لیکن جب وہ اگلی قسط کے لیے جائیں گے تو یہ سوال ضرور اٹھے گا۔
دوسرا بڑا مسئلہ ان کے بقول ایف اے ٹی ایف کے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کے سبب پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک دونوں مبصر کی حیثیت سے وہاں بیٹھتے ہیں۔ اور وہاں جس ملک کو جس لسٹ میں رکھنے یا ڈالنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے یہ دونوں ادارے بھی قرضے دینے کے اپنے فیصلے اور شرح سود مقرر کرنے کے فیصلوں میں ایف اے ٹی ایف کے فیصلوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے پاکستان کے لیے آئندہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا اور مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان کا امپورٹ بل اور زیادہ بڑھ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے فارن ایکس چینج پر بوجھ میں بھی اضافہ ہو گا۔
ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ ایک اور مسئلہ جو پیدا ہونے کا خطرہ ہے وہ یہ کہ اطلاعات کے مطابق روس نے یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں اس پر عائد مالیاتی تعزیرات سے بچنے کے لیے جن کے تحت انٹرنیشنل مارکیٹ میں مالیاتی لین دین کے نظام کے استعمال پر جسے ایبان کہا جاتا ہے۔ روس کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے ، اس لیے روس نے اپنے تاجروں سے کہا ہے کہ اب وہ بین الاقوامی لین دین کے لیے چینی کرنسی آر ایم بی استعمال کریں۔ جس میں ایبان کی شرط نہیں ہےاور اگر اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا اور تمام روسی کمپنیوں نے آر ایم بی کا استعمال شروع کردیا تو چینی کرنسی کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مانگ زیادہ ہو گی اور اس کی قدر بھی بڑھ جائے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ جو بہت ساری چینی اشیاء صرف پاکستان سستے داموں چین سے درآمد کرتا ہے وہ بھی مہنگی ہو جائیں گی اور پاکستان کو ان کی بھی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی اور پاکستان میں افراط زر کی شرح اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جب عالمی سطح پر پیدا ہونے والے بحران کا بھرپور اثر پاکستان پر آئے گا تو ہمیں کیا کرنا ہو گا۔
تاہم وزیر اعظم کی اکنامک مشاورتی کمیٹی کے رکن عابد قیوم سلیہری کا کہنا تھا کِہ وہ نہیں سمجھتے کہ وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج سےملک کے مالیاتی خسارے میں کوئی اضافہ ہو گا کیونکہ یہ پیکیج سوچ سمجھ کر دیا گیا ہے۔ اور پہلے ہی طے کر لیا گیا ہے کہ کوئی ڈھائی سو بلین روپے کی وہ رقم کہاں سے اور کن مدوں سے حاصل کی جائے گی جو اس پیکیج پر خرچ ہو گی۔ اسے آئی ایم ایف کےساتھ اسے شیئر کیا جا چکا ہے اور اس سے آئندہ اس کے ساتھ معاملات طے کرنے کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے اس اعلان کے بعد کہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کردے گا۔ عالمی منڈی میں بقول ان کے تیل کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئی ہیں جو پاکستان جیسے ملکوں کے لیے نیک شگون ہےاور آئی ایم ایف کو اب یہ سمجھانا آسان ہو گاکہ ریلیف پیکیج سے ملک کے مالیاتی خسارے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاکستان کا فوری معاشی مستقبل کیا ہے؟ اس بارے میں ماہرین کی آراء میں اختلاف ہے۔ عابد سلیہری کا کہنا ہے کِہ پاکستان کی معیشت ایک متحرک معیشت ہے اور پاکستان ان دو ممالک میں سے ایک ہے جو کووڈ کے دوران مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کے مقابلے پر قرض کی شرح کم کرنے میں کامیاب رہا اور عالمی اداروں کی پاکستان میں جی ڈی پی بڑھنے کے حوالے سے پیش گوئی حوصلہ افزا ہے۔
ڈاکٹر سلیہری نے کہا کہ بہرحال بیرونی عوامل جس طرح دنیا کے دوسرے ملکوں کو متاثر کریں گے ویسے ہی پاکستان کو بھی کریں گے۔ مثلاً اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہاکستان یقینًا متاثر ہو گا۔ دوسرا معاملہ جو بہت اہم ہے وہ گندم کی قیمتوں کا ہے۔ اگر پاکستان میں اس کی پیداوار مقررہ ہدف سے کم ہوئی تو صورت حال پر اثر پڑے گا۔ اس لیے کہ روس اور یوکرین گندم کے دونوں بڑے برآمد کنندگان جنگ میں الجھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں گندم کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں ہیں اور اگر ہاکستان کو گندم درآمد کرنی پڑی تو اس کے اثرات مجموعی معاشی صورت حال پر بلا شبہ آئیں گے۔
روسی تاجروں کی جانب سے عالمی سطح پر مالی لین دین کے لیے چین کی کرنسی کے ممکنہ استعمال اوراس سے اس کی قدر بڑھنے کے سبب پاکستان اور چین کے درمیان تجارت پر اثرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ پہلے ہی کوئی سارے 13ن بلین ڈالر کا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان کرنسی بدلنے کا معاہدہ بھی موجود ہے۔ تو اگر ایسی کوئی صورت بنی تو دونوں ملک باہمی تعاون کے تحت اسے طے کر لیں گے۔
آنے والے دن پاکستان یا کسی بھی ملک خاص طور پر غریب ملکوں کے لیے کیا لیے کر آئیں گے اس کا زیادہ تر انحصار اب یوکرین کی جنگ کے نتیجے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر ہے۔ اور ان دونوں معاملوں پر یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بس انتظار کرو اور دیکھو والا معاملہ ہے۔