مشہور مقولہ ہے کہ ہاتھیوں کی جنگ میں نقصان فصلوں اور چونٹیوں کا ہی ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ایسے کئی ترقی پذیر ممالک کو ہے جو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پیدا شدہ جنگی صورتِ حال میں براہ راست شامل نہیں لیکن اس کے اثرات کا سامنا کررہے ہیں۔ مشرقی یورپ میں جنم لینے والا یہ تنازع جنوبی ایشیا میں پاکستان کی معیشت کو بھی متاثر کررہا ہے۔
جنگ شروع ہونے سے قبل ہی کرونا وائر س کی وبا اور روس یوکرین کشیدگی کے باعث یورپ میں جاری توانائی کے بحران کی وجہ سے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو ایل این جی کی سپلائی میں کمی کا سامنا تھا۔اس کی وجہ سے پاکستان کو بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے ڈیزل پر انحصار کرنا پڑ رہا تھا جس کے سبب رواں سال جنوری میں سات سال کے دوران ملک میں ڈیزل سے بجلی کی پیدوار کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔
ڈیزل کے استعمال کی وجہ سےپاکستان میں بجلی کی پیداواری قیمت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جنوری کے دوران بجلی کی اوسط قیمت میں 12 روپے فی کلوواٹ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو 18 ماہ کی بلند ترین قیمت ہے۔
کاروباری ادارے عارف حبیب لمیٹڈ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی بنیادی وجہ فرنس آئل، ہائی اسپیڈ ڈیزل، کوئلے اور ایل این جی کی قیمت میں اضافہ ہے۔ عالمی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے طلب میں کمی کے باوجود آئندہ چند ماہ تک ایل این جی کی قیمتیں بلند سطح پر رہنے کا امکان ہے۔
بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ڈیزل بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والا مہنگا ایندھن ہے جو فرنس آئل سے 14 فی صد اور ایل این جی سے 55 فی صد مہنگا ہے۔ جب کہ پاکستان میں پن بجلی (28 فی صد) اور کوئلہ (26 فی صد) کے بعد سب سے زیادہ 17 فی صد بجلی ایل این جی سے پیدا کی جاتی ہے جو درآمد کی جاتی ہے۔
ایک جانب عالمی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 120 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی ہے تو ایل این جی کے اسپاٹ کارگوز کی قیمت بھی 60 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہو چکی ہے۔ تاہم قطر کے ساتھ خریداری کے نئے 10 سالہ معاہدے کے تحت پاکستان کو برینٹ تیل کے 10.2 فی صد کے برابر قیمت پر ایل این جی ملتی ہے۔
لیکن پاکستان اپنی ضرورت کا کچھ حصہ جو تقریباً 20 فی صد کے قریب بنتا ہے اسپاٹ کارگوز کی خریداری سے بھی پورا کرتا ہے۔ وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ مارچ میں پاکستان کو 9 سے 10 کارگوز کی قیمت 14.5 ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو کے قریب پڑے گی۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات
پاک کویت انویسٹمنٹ لمیٹڈ میں ہیڈ آف ریسرچ اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سمیت تمام ہی ترقی پذیر ممالک روس یوکرین تنازع سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اس قدر نہیں جتنے ترقی یافتہ ممالک کے پاس ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے پاس ذخائر اس قدر مستحکم ہیں کہ وہ اس مشکل صورتِ حال کا آسانی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیل کی قیمت 5 ڈالرز بڑھنے سے ملک کو 1.2 ارب ڈالرز کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ گزشتہ سال تیل کی اوسط قیمت 76 ڈالر فی بیرل رہی تھی اور رواں سال میں اب تک تیل کی قیمت میں44 ڈالرز فی بیرل اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے درآمدی بل پر اس کا دباؤ تو بے تحاشہ ہوگا۔ پاکستانی روپے کی قدر میں جاری کمی سے بھی اس کے اثرات واضح ہیں۔
سمیع اللہ طارق نے بتایا کہ اگر گزشتہ تین ماہ کا جائزہ لیا جائے تو ملکی برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں ڈیڑھ ارب ڈالر تک کی بڑی کمی آئی ہے۔ ملک میں کرنسی ایڈجسٹمنٹ اور شرحِ سود میں اضافے کے بعد تیل کی طلب میں تھوڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو صورتِ حال بہتر تو لگ رہی ہے لیکن قیمت میں اضافے سے ظاہر ہے کہ ادائیگیوں کے توازن اور روپے پر دباؤ کی وجہ سے افراطِ زر یعنی مہنگائی زیادہ ہے۔
کیا لوڈ شیڈنگ کا خدشہ ہو سکتا ہے؟
تیل کی قیمتیں نہ بڑھانے سے توانائی کے شعبے میں موجود گردشی قرضہ بڑھنے سے گرمی میں لوڈ شیڈنگ بڑھ سکتی ہے؟ اس سوال پر سمیع اللہ طارق کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار حکومت کے انتظام پر بھی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حکومت کی کوشش تو ہو گی کہ وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ تک کی نوبت نہ آنے دے۔
ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک تو یہ کمپنیاں اس چیلنج سے نمٹ رہی ہیں لیکن آگے جاکر مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ایل پی جی کی زیادہ طلب تو ملک میں سردیوں میں رہتی ہے لیکن سپلائی چین متاثر ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس کے اثرات کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لیکن حکومت نے حال ہی میں ملک میں تیل کی مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں زیادہ ہونے کے باوجود دس روپے فی لیٹر کم کی ہیں اور آئندہ 90 روز کے لیے انہیں منجمد رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جب کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بھی پانچ روپے کمی کا اعلان کیا ہے۔
توانائی کی قیمتیں کم کرنے کے اثرات
ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے ملک میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ مزید بڑھے گا جو پہلے ہی ریکارڈ 2400 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ رعایتی پیکج کا مقصد عوام کو عالمی مہنگائی کے اثرات سے بچانا ہے۔
بعض معاشی ماہرین حکومت کے اس اقدام کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے حکومت کی جانب سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے، ساکھ بچانے اور تنقید سے بچنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ پاکستان کے درآمدی بل میں 25 فی صد حصہ پیٹرولیم مصنوعات کا ہے جس میں سے 50 فی صد موٹر سائیکل سوار استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں پہلے ہی تیل کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ یہ طبقہ صرف ضروری استعمال ہی کے لیےہی ایندھن استعمال کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ قیمت 10 روپے کم ہونے کے باوجود بھی اضافی طلب بڑھنے کا کوئی امکان تو نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ جنگ کی وجہ سے پاکستانیوں کو بھی مہنگے ایندھن کی خریداری کرنا پڑ رہی ہے۔