پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں سے دو کروڑ پچاس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسکول سے باہر ان بچوں میں سے 55 فیصد لڑکیاں ہیں۔ تنظیم ’الف اعلان‘ کے مطابق جو بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں اُن کی عمریں پانچ سے سولہ سال کے درمیان ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بلوچستان میں اسکول جانے والے بچوں میں 66 فیصد جب کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے میں 62 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
ملک میں تعلیم سے محروم بچوں میں سے نصف کا تعلق پنجاب سے ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں سے لگ بھگ 78 فیصد جب کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں 50 فیصد لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔
تنظیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار سلمان نوید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسکول میں داخل ہونے والے بچوں کی اکثریت دسویں جماعت سے پہلے ہی اپنی تعلیم کا سلسلہ چھوڑ دیتی ہے۔
’’خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول کی جب بیرونی دیوار نہیں ہو گی، سکیورٹی نہیں ہو گی، لیٹرین، پانی نہیں ہو گا تو والدین اپنی بچیوں کو اسکول کیسے بھیجیں گے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر لڑکے اور لڑکیاں اسکول میں داخل ہونے کے بعد خود ہی بعد میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں اور اس کی بڑی وجوہات میں تعلیمی اداروں میں ناکافی سہولتیں اور اساتذہ کی طرف سے انھیں سزائیں دینا بھی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم کے مطابق تقریباً 29 فیصد لڑکیاں اس وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں کیوں کہ اُن کے والدین چاہتے ہیں کہ وہ اُن کا ہاتھ بٹائیں۔
اُدھر وزیر مملکت برائے تعلیم اور فنی تربیت بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ تعلیم کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے اور شرح خواندگی بڑھانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔