اسلام آباد —
پاکستان کا شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے ملک میں ہونے والی دہشت گردی و انتہا پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
اس تباہی سے صوبے کی سیاسی و سماجی زندگی کے علاوہ کاروباری اور تعلیمی شعبہ بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔
تاہم صوبے کی موجودہ حکومت کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً تعلیم اور صحت پر خاص توجہ دیتے ہوئے ان شعبوں میں بہتری کے لیے پرعزم ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے جہاں ان کی حکومت نے سالانہ بجٹ میں اضافہ کیا وہیں غیر ملکی امدادی اداروں کی مدد سے بھی بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں اسکولوں خصوصاً سرکاری درس گاہوں میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کے بھی بے شمار مسائل تھے جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا رہا ہے۔
’’بدقسمتی سے ایک پرائمری اسکول جس میں چھ کلاسز ہوتی ہیں وہاں دو کلاس روم کے اسکول بنے ہوئے تھے، دو ٹیچر ہوتے تھے ان کو ہم نے تبدیل کر کے چھ کمرے اور چھ اساتذہ کردیا ہے تاکہ غریب بچوں کو صحیح تعلیم مل سکے۔‘‘
پرویز خٹک نے بتایا کہ غیر ملکی امدادی ادارے ان کے صوبے میں تعلیم کے شعبے میں معاونت فراہم کرنے میں دلچپسی رکھتے ہیں اور ان اداروں کو شفافیت کی یقین دہانی کروائے جانے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا جو بالآخر خیبرپختونخواہ میں تعلیم کے فروغ کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔
’’ہم ان (امدادی اداروں) کو سکیورٹی بھی دے رہے ہیں ان کو یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں کہ ان کا پیسہ صحیح استعمال ہو گا کہیں غلط نہیں جائے گا اس میں سے کوئی کمیشن نہیں لیا جائے گا تو ان کو اعتماد پیدا ہوگیا ہے، تو جہاں پر کسی کو یہ پتا چلے کہ اس کا پیسہ
صحیح لگتا ہے تو وہ جا کر جنگ ہو چاہے امن ہو اپنا پیسہ استعمال ہوتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔‘‘
خیبرپختونخواہ میں شعبہ تعلیم کو شدت پسندوں سے خطرات لاحق رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں عسکریت پسند سینکڑوں اسکولوں خصوصاً لڑکیوں کی درس گاہوں کو بارودی مواد سے تباہ کرتے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ 2005ء میں آنے والے زلزلے سے بھی صوبے کے مختلف علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا جن میں سے اکثریت ابھی تک بحالی و تعمیر نو کے مراحل میں ہی ہے۔
وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ایسے اسکولوں کی تعمیر نو کے لیے سمندر پار پاکستانیوں سے بھی تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔
’’ہم نے کنسٹرکٹ اسکولوں کا پروگرام بنایا ہے جو ہم ساری دنیا میں بھی پاکستانی ہیں ان کو دعوت دیں کہ وہ آکر اس میں سرمایہ کاری کریں ہمارے اسکولوں کو بحال کریں اور جتنے ہمارے اسکولوں کے کمروں کی کمی ہے اور باقی چیزیں ہیں اس کے لیے ہم پاکستانیوں سے مدد مانگیں گے۔‘‘
گزشتہ ہفتے ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے خصوصی نمائندہ برائے تعلیم گورڈن براؤن نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اُنھوں نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان تعلیم کے لیے اہداف مقرر کرے تو عالمی برادری اُن کے حصول میں ہر ممکن معاونت کرے گی۔
اس تباہی سے صوبے کی سیاسی و سماجی زندگی کے علاوہ کاروباری اور تعلیمی شعبہ بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔
تاہم صوبے کی موجودہ حکومت کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً تعلیم اور صحت پر خاص توجہ دیتے ہوئے ان شعبوں میں بہتری کے لیے پرعزم ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے جہاں ان کی حکومت نے سالانہ بجٹ میں اضافہ کیا وہیں غیر ملکی امدادی اداروں کی مدد سے بھی بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں اسکولوں خصوصاً سرکاری درس گاہوں میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کے بھی بے شمار مسائل تھے جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا رہا ہے۔
’’بدقسمتی سے ایک پرائمری اسکول جس میں چھ کلاسز ہوتی ہیں وہاں دو کلاس روم کے اسکول بنے ہوئے تھے، دو ٹیچر ہوتے تھے ان کو ہم نے تبدیل کر کے چھ کمرے اور چھ اساتذہ کردیا ہے تاکہ غریب بچوں کو صحیح تعلیم مل سکے۔‘‘
پرویز خٹک نے بتایا کہ غیر ملکی امدادی ادارے ان کے صوبے میں تعلیم کے شعبے میں معاونت فراہم کرنے میں دلچپسی رکھتے ہیں اور ان اداروں کو شفافیت کی یقین دہانی کروائے جانے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا جو بالآخر خیبرپختونخواہ میں تعلیم کے فروغ کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔
’’ہم ان (امدادی اداروں) کو سکیورٹی بھی دے رہے ہیں ان کو یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں کہ ان کا پیسہ صحیح استعمال ہو گا کہیں غلط نہیں جائے گا اس میں سے کوئی کمیشن نہیں لیا جائے گا تو ان کو اعتماد پیدا ہوگیا ہے، تو جہاں پر کسی کو یہ پتا چلے کہ اس کا پیسہ
صحیح لگتا ہے تو وہ جا کر جنگ ہو چاہے امن ہو اپنا پیسہ استعمال ہوتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔‘‘
خیبرپختونخواہ میں شعبہ تعلیم کو شدت پسندوں سے خطرات لاحق رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں عسکریت پسند سینکڑوں اسکولوں خصوصاً لڑکیوں کی درس گاہوں کو بارودی مواد سے تباہ کرتے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ 2005ء میں آنے والے زلزلے سے بھی صوبے کے مختلف علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا جن میں سے اکثریت ابھی تک بحالی و تعمیر نو کے مراحل میں ہی ہے۔
وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ایسے اسکولوں کی تعمیر نو کے لیے سمندر پار پاکستانیوں سے بھی تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔
’’ہم نے کنسٹرکٹ اسکولوں کا پروگرام بنایا ہے جو ہم ساری دنیا میں بھی پاکستانی ہیں ان کو دعوت دیں کہ وہ آکر اس میں سرمایہ کاری کریں ہمارے اسکولوں کو بحال کریں اور جتنے ہمارے اسکولوں کے کمروں کی کمی ہے اور باقی چیزیں ہیں اس کے لیے ہم پاکستانیوں سے مدد مانگیں گے۔‘‘
گزشتہ ہفتے ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے خصوصی نمائندہ برائے تعلیم گورڈن براؤن نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اُنھوں نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان تعلیم کے لیے اہداف مقرر کرے تو عالمی برادری اُن کے حصول میں ہر ممکن معاونت کرے گی۔