اسلام آباد —
وفاقی وزارت برائے تعلیم و تربیت نے ایک قومی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت حکام کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اقوام متحدہ کے طے کردہ اہداف کو آئندہ تین سالوں میں تیزی سے حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
وزارت کے سیکرٹری احمد بخش لہری نے منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس منصوبے کی مجموعی لاگت تقریباً آٹھ ارب روپے ہے جس کے تحت پچاس لاکھ سے زائد بچوں کو پرائمری اسکول میں داخل کیا جائے گا۔
’’ان بچوں کو وہاں داخل کیا جائے گا جہاں جگہ دستیاب ہے۔ کہیں اسکولوں میں اضافی کمرے بنائے جائیں گے، اسٹاف اور اساتذہ کی تقرریاں کی جائیں گی اور جہاں یہ چیزیں ممکن نا ہوسکیں وہاں ہم غیر رسمی اسکول کی تعداد میں 25 ہزار کا اور اضافہ کریں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے اسکول چھوڑنے کی وجہ اساتذہ کی کمی اور وہاں بچوں کی بے تحاشہ تعداد ہے ’’جس بنا پر انہیں توجہ نہیں حاصل ہوتی‘‘۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پرائمری سکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح 30 فیصد ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں تعلیم حکومتوں کی توجہ کا کبھی مرکز نہیں رہی اور اسی باعث اس شعبے میں آئندہ دو سالوں میں اقوام متحدہ کی طرف سے 88 فیصد شرح خواندگی کے میلینیم ڈویلپمنٹ گول کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
احمد بخش لہری کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد صوبائی حکومتوں کے تعاون اور اشتراک سے کیا جائے گا اور ان سے زیادہ وسائل مختص کرنے کا بھی کہا جائے گا۔ گزشتہ حکومت میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے۔
وزارت تعلیم اور تربیت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں ملک میں سیاسی عدم استحکام، سلامتی کے حالات اور قدرتی آفات کی وجہ سے تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔
پاکستان اس وقت تعلیم پر سالانہ ملک کی مجموعی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے جبکہ ماہرین اور اقوام متحدہ کے مطابق اسے کم از کم چار فیصد ہونا چاہیے۔
تعلیم کے شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شعبے پر اخراجات میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ نصاب اور تعلیم کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر اصغر قادر کہتے ہیں ’’کسان بے وقوف نہیں وہ دیکھتا ہے کہ اگر بچہ گھر پر رہے تو اس سے کام لیا جاسکتا ہے مگر اسکول بھیجنے سے نا تو وہ اب کام آئے گا اور نا ہی بعد میں تو وہ نہیں بھیجتا۔ اگر اسے تعلیم ایسی دی جائے کہ وہ کچھ کرسکے تو پھر وہ خود بچے کو بھیجے گا ورنہ زیادہ عرصے تک وہ انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کے پاکستان میں نمائندے ڈان روہمین حکومت کی نئی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے تعاون یا مدد کے لیے پاکستان کو سنجیدگی اور اپنا عزم دکھانا ہوگا۔
وزارت کے سیکرٹری احمد بخش لہری نے منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس منصوبے کی مجموعی لاگت تقریباً آٹھ ارب روپے ہے جس کے تحت پچاس لاکھ سے زائد بچوں کو پرائمری اسکول میں داخل کیا جائے گا۔
’’ان بچوں کو وہاں داخل کیا جائے گا جہاں جگہ دستیاب ہے۔ کہیں اسکولوں میں اضافی کمرے بنائے جائیں گے، اسٹاف اور اساتذہ کی تقرریاں کی جائیں گی اور جہاں یہ چیزیں ممکن نا ہوسکیں وہاں ہم غیر رسمی اسکول کی تعداد میں 25 ہزار کا اور اضافہ کریں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے اسکول چھوڑنے کی وجہ اساتذہ کی کمی اور وہاں بچوں کی بے تحاشہ تعداد ہے ’’جس بنا پر انہیں توجہ نہیں حاصل ہوتی‘‘۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پرائمری سکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح 30 فیصد ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں تعلیم حکومتوں کی توجہ کا کبھی مرکز نہیں رہی اور اسی باعث اس شعبے میں آئندہ دو سالوں میں اقوام متحدہ کی طرف سے 88 فیصد شرح خواندگی کے میلینیم ڈویلپمنٹ گول کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
احمد بخش لہری کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد صوبائی حکومتوں کے تعاون اور اشتراک سے کیا جائے گا اور ان سے زیادہ وسائل مختص کرنے کا بھی کہا جائے گا۔ گزشتہ حکومت میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے۔
وزارت تعلیم اور تربیت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں ملک میں سیاسی عدم استحکام، سلامتی کے حالات اور قدرتی آفات کی وجہ سے تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔
پاکستان اس وقت تعلیم پر سالانہ ملک کی مجموعی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم خرچ کرتا ہے جبکہ ماہرین اور اقوام متحدہ کے مطابق اسے کم از کم چار فیصد ہونا چاہیے۔
تعلیم کے شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شعبے پر اخراجات میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ نصاب اور تعلیم کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر اصغر قادر کہتے ہیں ’’کسان بے وقوف نہیں وہ دیکھتا ہے کہ اگر بچہ گھر پر رہے تو اس سے کام لیا جاسکتا ہے مگر اسکول بھیجنے سے نا تو وہ اب کام آئے گا اور نا ہی بعد میں تو وہ نہیں بھیجتا۔ اگر اسے تعلیم ایسی دی جائے کہ وہ کچھ کرسکے تو پھر وہ خود بچے کو بھیجے گا ورنہ زیادہ عرصے تک وہ انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کے پاکستان میں نمائندے ڈان روہمین حکومت کی نئی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے تعاون یا مدد کے لیے پاکستان کو سنجیدگی اور اپنا عزم دکھانا ہوگا۔