اسلام آباد —
عیدالاضحیٰ کے پہلے روز ملک بھر میں جہاں لوگوں کی اکثریت جانوروں کی قربانی میں مصروف رہی وہیں بہت سے لوگ جانور خریدنے کے لیے منڈیوں میں بھاؤ تاؤ کرتے بھی دکھائی دیے کیونکہ ان کے نزدیک اس روز جانور قدرے سستے داموں مل جاتا ہے۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی جانوروں کی منڈیوں میں ایک سا ہی منظر دیکھنے اور ایک سی ہی آوازیں سننے کو ملیں۔ گاہک قیمتوں کی ہوشربائی اور بیوپاری خریداروں کی کج روی کا تذکرہ کرتے دکھائی دیے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لگنے والی منڈی میں پنجاب اور سندھ سے لاتعداد چھوٹے بڑے جانور لائے گئے مگر گزشتہ سال کی نسبت ان کی تعداد قدرے زیادہ تھی۔
چھوٹے جانوروں میں بکرے اور دنبے کی قیمت 20 ہزار سے شروع ہو کر 70 ہزار جب کہ گائے اور بیل 60 ہزار سے لگ بھگ دو لاکھ روپے تک فروخت ہو رہے ہیں۔
طارق رضا منڈی میں مختلف جانوروں کو چھان پھٹک کر دیکھنے اور بیوپاریوں سے اپنی گنجائش کے مطابق قیمت طے کرنے کی تگ و دو میں تین گھنٹے صرف کرنے کے بعد بکروں کا ایک جوڑا 40 ہزار روپے میں خریدنے میں کامیاب ہوئے۔
’’مارکیٹ بہت مہنگی ہے اور بیوپاری آپ کی گنجائش سے دوگنا زیادہ مانگ رہے ہیں، میرا خیال ہے اس بار قربانی انسان کی ہو رہی ہے جانور کی تو مشکل ہی ہو۔ لیکن جو مانگ رہے ہیں وہ بھی تھک رہے ہیں جانور نکالنے کے چکر میں ہیں۔‘‘
انھوں نے ازراہ تفنن کہا کہ اس بار جانور خریدنا ’’کشمیر فتح کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
عبدالفہیم بھی ایک بکرے کے مالک بننے کے بعد قدرے مطمئن نظر آرہے تھے کہ خریداری صبر آزما ہی سہی قربانی کا فریضہ ادا کرنے میں بہرحال وہ سرخرو ہو پائیں گے۔
’’قربانی کرنی ہے عیدالاضحیٰ منانی ہے اس لیے جس طرح بھی ہے لوگ خرید رہے ہیں کہ فریضہ تو ادا کرنا ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ مہنگائی ہر طرف ہے اور بیوپاری بھی بلاشبہ اس سے متاثر ہوئے ہوں گے لیکن بہرحال جتنی قیمتیں مانگی جا رہی ہیں وہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔
پنجاب کے علاقے لیہ سے نسیم عباس اپنے ساتھ تین درجن کے قریب چھوٹے جانور فروخت کے لیے اسلام آباد کی منڈی میں لے کر آئے۔ انھوں نے جانوروں کی قیمتوں میں اضافے کا سارا ملبہ ’ڈیزل‘ پر ڈال دیا۔
’’جس گاڑی میں ہم جانور لاتے تھے وہ پچھلے سال 20 ہزار روپے میں آتی تھی اب وہ 30 سے 35 ہزار روپے میں آتی ہے کیونکہ ڈیزل مہنگا ہوگیا ہے۔ منڈی میں آنے کے لیے 200 روپیہ فی بکرا دینا پڑتا ہے پھر ان کے چارے پر اٹھنے والے اخراجات بھی تو ان ہی بکروں سے وصول ہوں گے نا۔‘‘
نسیم کے صرف 15 بکرے ہی فروخت ہو سکے ہیں لیکن وہ پرامید ہیں کہ سارے جانور بیچ کر ہی لیہ جائیں گے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بیل اور بچھڑے لے کر آنے والے محمد رفیق خریداروں کے رویے پر خاصے نالاں دکھائی دیے۔
’’ سوا لاکھ کا جانور ہوتا ہے تو کہتے ہیں 65 ہزار میں دے دو اس قسم کے حالات چل رہے ہیں۔ بھوسہ چھ سو روپے من ہے، چارہ چار سو روپے من ہے۔ ہر چیز ہی مہنگی ہے۔‘‘
ہر سال کی طرح اس بار بھی جانوروں کی منڈیوں میں ایک سا ہی منظر دیکھنے اور ایک سی ہی آوازیں سننے کو ملیں۔ گاہک قیمتوں کی ہوشربائی اور بیوپاری خریداروں کی کج روی کا تذکرہ کرتے دکھائی دیے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لگنے والی منڈی میں پنجاب اور سندھ سے لاتعداد چھوٹے بڑے جانور لائے گئے مگر گزشتہ سال کی نسبت ان کی تعداد قدرے زیادہ تھی۔
چھوٹے جانوروں میں بکرے اور دنبے کی قیمت 20 ہزار سے شروع ہو کر 70 ہزار جب کہ گائے اور بیل 60 ہزار سے لگ بھگ دو لاکھ روپے تک فروخت ہو رہے ہیں۔
طارق رضا منڈی میں مختلف جانوروں کو چھان پھٹک کر دیکھنے اور بیوپاریوں سے اپنی گنجائش کے مطابق قیمت طے کرنے کی تگ و دو میں تین گھنٹے صرف کرنے کے بعد بکروں کا ایک جوڑا 40 ہزار روپے میں خریدنے میں کامیاب ہوئے۔
’’مارکیٹ بہت مہنگی ہے اور بیوپاری آپ کی گنجائش سے دوگنا زیادہ مانگ رہے ہیں، میرا خیال ہے اس بار قربانی انسان کی ہو رہی ہے جانور کی تو مشکل ہی ہو۔ لیکن جو مانگ رہے ہیں وہ بھی تھک رہے ہیں جانور نکالنے کے چکر میں ہیں۔‘‘
انھوں نے ازراہ تفنن کہا کہ اس بار جانور خریدنا ’’کشمیر فتح کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
عبدالفہیم بھی ایک بکرے کے مالک بننے کے بعد قدرے مطمئن نظر آرہے تھے کہ خریداری صبر آزما ہی سہی قربانی کا فریضہ ادا کرنے میں بہرحال وہ سرخرو ہو پائیں گے۔
’’قربانی کرنی ہے عیدالاضحیٰ منانی ہے اس لیے جس طرح بھی ہے لوگ خرید رہے ہیں کہ فریضہ تو ادا کرنا ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ مہنگائی ہر طرف ہے اور بیوپاری بھی بلاشبہ اس سے متاثر ہوئے ہوں گے لیکن بہرحال جتنی قیمتیں مانگی جا رہی ہیں وہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔
پنجاب کے علاقے لیہ سے نسیم عباس اپنے ساتھ تین درجن کے قریب چھوٹے جانور فروخت کے لیے اسلام آباد کی منڈی میں لے کر آئے۔ انھوں نے جانوروں کی قیمتوں میں اضافے کا سارا ملبہ ’ڈیزل‘ پر ڈال دیا۔
’’جس گاڑی میں ہم جانور لاتے تھے وہ پچھلے سال 20 ہزار روپے میں آتی تھی اب وہ 30 سے 35 ہزار روپے میں آتی ہے کیونکہ ڈیزل مہنگا ہوگیا ہے۔ منڈی میں آنے کے لیے 200 روپیہ فی بکرا دینا پڑتا ہے پھر ان کے چارے پر اٹھنے والے اخراجات بھی تو ان ہی بکروں سے وصول ہوں گے نا۔‘‘
نسیم کے صرف 15 بکرے ہی فروخت ہو سکے ہیں لیکن وہ پرامید ہیں کہ سارے جانور بیچ کر ہی لیہ جائیں گے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ سے بیل اور بچھڑے لے کر آنے والے محمد رفیق خریداروں کے رویے پر خاصے نالاں دکھائی دیے۔
’’ سوا لاکھ کا جانور ہوتا ہے تو کہتے ہیں 65 ہزار میں دے دو اس قسم کے حالات چل رہے ہیں۔ بھوسہ چھ سو روپے من ہے، چارہ چار سو روپے من ہے۔ ہر چیز ہی مہنگی ہے۔‘‘