پاکستان میں انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے اعلیٰ ترین عہدے دار ’چیف الیکشن کمشنر‘کے لیے سابق جج فخر الدین جی ابراہیم کو نامزد کیا گیا ہے۔
آئین میں حال ہی میں متعارف کی گئی بیسویں ترمیم الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تقرری کے لیے وزیراعظم کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کا پابند بناتی ہے،لیکن نئے چیف الیکشن کمشنر کی نامزدگی پر ان دونوں کے درمیان اتفاق رائے نا ہونے کے بعد اس معاملے کو پارلیمانی کمیٹی میں بھیج دیا گیا تھا۔
12 رکنی پارلیمانی کمیٹی نے پیر کو اتفاق رائے سے فخر الدین جی ابراہیم کے نام کی منظوری دی۔
فخر الدین جی ابراہیم کا نام حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے تجویز کر رکھا تھا اور انھیں پاکستان میں بالعموم ایک غیر جانبدار شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی میں شامل مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فخر الدین جی ابراہیم کے لیے آزدانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ایک چیلنج ہو گا۔
’’ان کے لیے ایک چیلنج ہو گا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا الیکشن کرائیں جو حکومت، اپوزیشن اور باقی جماعتیں ہیں ان سب کے لیے قابل قبول ہو‘‘۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے متفقہ نامزدگی کو ایک اہم کامیابی قرار دیتے ہیں۔
’’آج جو چیف الیکشن کمشنر ہے وہ اپوزیشن کے دیئے ہوئے ناموں میں شامل تھا۔۔۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ جمہوری، آئینی اور فئیر کوئی دوسرا فیصلہ شاید نا ہو‘‘۔
اس وقت سپریم کورٹ کے سینیئر جج شاکر اللہ جان بطور قائم مقام الیکشن کمشنر کے اضافی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور اگر پارلیمانی کمیٹی بھی نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام کا فیصلہ نا کر پاتی تو قواعد و ضوابط کے تحت ان یی کی نگرانی میں آئندہ عام انتخابات کرائے جاتے۔
حال ہی میں عدالت عظمٰی کے احکامات کی روشنی میں الیکشن کمشن نے ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لیے ایک ضابطہ اخلاق کی بھی منظوری دی تھی جس کے تحت پولنگ مراکز میں اُمیدواروں کے داخلے پر پابندی سمیت کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔
کمیشن نے انتخابی اخراجات کی حد پندرہ لاکھ روپے مقرر کرتے ہوئے امیدواروں کو پابند بنایا ہے کہ وہ یہ رقم پہلے سے وضع کردہ بینک کھاتے سے ہی خرچ کر سکیں گے۔
تمام اُمیدواروں پر لازم ہو گا کہ وہ اخراجات کی ہفتہ وار تفصیلات بھی الیکشن کمیشن کے متعلقہ عہدیدار کے پاس جمع کروائیں۔ ان قواعد وضوابط پر عمل درآمد کرانا نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پارلیمانی کمیٹی کے نام مبارکباد کے الگ الگ پیغامات میں کہا کہ کمیٹی میں شامل تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے متفقہ طور پر نام کی منظور دی۔
آئین میں حال ہی میں متعارف کی گئی بیسویں ترمیم الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تقرری کے لیے وزیراعظم کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کا پابند بناتی ہے،لیکن نئے چیف الیکشن کمشنر کی نامزدگی پر ان دونوں کے درمیان اتفاق رائے نا ہونے کے بعد اس معاملے کو پارلیمانی کمیٹی میں بھیج دیا گیا تھا۔
12 رکنی پارلیمانی کمیٹی نے پیر کو اتفاق رائے سے فخر الدین جی ابراہیم کے نام کی منظوری دی۔
فخر الدین جی ابراہیم کا نام حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے تجویز کر رکھا تھا اور انھیں پاکستان میں بالعموم ایک غیر جانبدار شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی میں شامل مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فخر الدین جی ابراہیم کے لیے آزدانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ایک چیلنج ہو گا۔
’’ان کے لیے ایک چیلنج ہو گا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا الیکشن کرائیں جو حکومت، اپوزیشن اور باقی جماعتیں ہیں ان سب کے لیے قابل قبول ہو‘‘۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے متفقہ نامزدگی کو ایک اہم کامیابی قرار دیتے ہیں۔
’’آج جو چیف الیکشن کمشنر ہے وہ اپوزیشن کے دیئے ہوئے ناموں میں شامل تھا۔۔۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ جمہوری، آئینی اور فئیر کوئی دوسرا فیصلہ شاید نا ہو‘‘۔
اس وقت سپریم کورٹ کے سینیئر جج شاکر اللہ جان بطور قائم مقام الیکشن کمشنر کے اضافی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور اگر پارلیمانی کمیٹی بھی نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام کا فیصلہ نا کر پاتی تو قواعد و ضوابط کے تحت ان یی کی نگرانی میں آئندہ عام انتخابات کرائے جاتے۔
حال ہی میں عدالت عظمٰی کے احکامات کی روشنی میں الیکشن کمشن نے ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لیے ایک ضابطہ اخلاق کی بھی منظوری دی تھی جس کے تحت پولنگ مراکز میں اُمیدواروں کے داخلے پر پابندی سمیت کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔
کمیشن نے انتخابی اخراجات کی حد پندرہ لاکھ روپے مقرر کرتے ہوئے امیدواروں کو پابند بنایا ہے کہ وہ یہ رقم پہلے سے وضع کردہ بینک کھاتے سے ہی خرچ کر سکیں گے۔
تمام اُمیدواروں پر لازم ہو گا کہ وہ اخراجات کی ہفتہ وار تفصیلات بھی الیکشن کمیشن کے متعلقہ عہدیدار کے پاس جمع کروائیں۔ ان قواعد وضوابط پر عمل درآمد کرانا نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پارلیمانی کمیٹی کے نام مبارکباد کے الگ الگ پیغامات میں کہا کہ کمیٹی میں شامل تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے متفقہ طور پر نام کی منظور دی۔