پاکستان میں انتخابات تو ہو گئے لیکن اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئے ہیں، جن کا تعلق غیر شفافیت سے ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج میں زیادہ تر ردوبدل پولنگ مکمل ہونے کے بعد نتائج کے درمیان طویل تاخیر کے دوران کی گئی ۔
الیکشن کمشن تاخیر کی ذمہ داری نتائج کی ترسیل کے لیے پہلی بار متعارف کرائے جانے والے الیکٹرانک نظام کی ناکامی پر ڈال رہا ہے ۔
یہ نظام کس طرح کام کرتے ہیں اس بارے میں نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ نظام دو سسٹمز کومربوط کر کے بنایا گیا تھا ۔ ایک تو رزلٹ ٹرانسمٹنگ سسٹم یا آرٹی ا یس ا ور دوسرا رزلٹ مینیجمنٹ یا آر ایم ایس تھا ۔
آر ٹی ایس سسٹم ایک آن لائن نظام تھا جو فارم 45 کو پولنگ اسٹیشن سے ریٹرننگ آفیسر تک پہنچانے کے لیے ایک ایپ کی صورت میں بنایا گیا تھا اور دوسرا نظام رزلٹ مینیجمینٹ سسٹم جوریٹرننگ افسر کے دفتر میں رکھے کمپیوٹر میں نصب تھا جو انتخابی نتائج کو اکٹھا کر کے ان کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔
طارق ملک نے کہا کہ اس سسٹم کے بریک ڈاؤن کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آرٹی سسٹم میں کوئی خرابی تھی تو اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ لیکن اگر اس سسٹم میں کوئی ٹیکنیکل خرابی ہو ہی گئی تھی تو بھی انتخابی نتائج میں تاخیر کی تمام ذمہ داری اس خرابی پر نہیں ڈالی جا سکتی کیوں کہ فارم 45 تو دستیاب ہونے چاہیئں تھے اور ووٹوں کی گنتی کے بعد وہ فارم ریٹرننگ آفس تک وقت پر پہنچائے جا سکتے تھے ۔ جس طرح ماضی میں جب کسی یٹکنالوجی کا استعمال نہیں ہوتا تھا اور انتخابی نتائج پولنگ اسٹیشنوں سے ریڑننگ افسروں تک پہنچائے جاتے تھے۔
انہوں نے کہا تاخیر کی اور کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اس بارے میں الیکشن کمیشن کی بھی تحقیقات ہونی چاہییں۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسی قسم کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب جب کہ نادرا کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم خراب نہیں تھا اور وہ ٹھیک کام کر رہا تھا اور یہ تاخیر ٹیکنیکل نوعیت کی نہیں تھی تو امکان موجود ہے اور یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے کہ اس تاخیر کے دوران انتخابی نتائج میں کوئی رد وبدل ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب مسئلہ صرف انتخابات کے نتائج میں تاخیر کا ہی نہیں ہے بلکہ اس تاخیر کے ساتھ یہ شک بھی وابستہ ہو گیا ہے کہ رزلٹ میں ردو بدل کیا گیا ہے اس لئے اب ضرور ی ہو گیا ہے کہ اس بارے میں کوئی تحقیقات کی جائیں تاکہ شکوک و شبہات کو ختم کیا جا سکے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحقیقات آزادانہ طریقے سے ہونی چاہییں۔ ان کی تجویز تھی کہ حکمران جماعت اور حزب اختلاف کی متفقہ رائے سے کوئی ایسا کمیشن یا کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جس میں کوئی بھی ایسا رکن نہ ہو جس کا کسی نہ کسی اعتبار سے انتخابی نتائج سے کوئی مفاد وابستہ ہو ۔
انہوں نے کہا جب تک اس انداز کی کوئی تحقیقات سامنے نہیں آتیں تو انتخابی نتائج کی تاخیر کے بارے میں کوئی حتمی رائے پیش نہیں کی جا سکتی ۔
آئندہ چند دنوں میں نئی حکومتیں قائم ہو جائیں گی لیکن نتائج کی تاخیر سے منسلک غیر شفافیت کے الزامات اگلے الیکشن تک چلتے رہیں گے۔ اب یہ انتخابی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتائج کی ترسیل کا فول پروف سسٹم متعارف کرائیں کہ تاکہ انتخابی نتائج میں تاخیر غیر شفافیت سے منسلک شکوک و شبہات کا سبب نہ بن سکے۔
مزید تفصیلات اس آڈیو لنک میں۔۔۔۔