تنازعہ کشمیر ماضی میں پاکستان کی قومی سیاست کا محور رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد تنازعہ کی بنیاد پر رکھی گئی تھی۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے اور ’گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘ کے نعرے دیے۔ 80 کی دھائی میں کشمیر میں علیحدگی کی تحریک کا آغاز ہوا اور 90 کی دھائی میں بھارت کے خلاف بغاوت میں شدت آتی گئی اور ساتھ ساتھ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی قومی سیاست میں ایک اہم مسئلے کی حثیت اختیار کرنے کے علاوہ ہر بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعت کے انتخابی منشور کا حصہ بنا رہا ۔
1994 میں میاں نواز شریف شریف نے بحیثیت اپوزیشن لیڈر پاکستانی کشمیر میں آ کر پاکستان کے پاس ایٹم بم کی موجودگی کا اعلان کیا ۔
یوں سن 2000 تک کشمیر میں بھارت سے علیحدگی کی تحریک کی حمایت انتخابی منشور کا اہم حصہ ہوا کرتی تھی اور انتخابی جلسوں میں کشمیری راہنماؤں کی جہادی تقریریں خصوصی توجہ کی حامل ہوتی تھی ۔
9/11 کے بعد 2002 میں جہادی تنظیموں پر پابندی اور 2003 میں جنگ بندی لائن پر فائر بندی کے بعد پاکستانی بھی جنرل پرویز مشرف کے چناب فارمولے پر لے دے کی وجہ سے کشمیر قومی سیاست میں اہم مسئلہ کی حثیت سے موضوع باعث رہا ۔
2013 کے عام انتخابات تک کشمیر مسلم لیگ ، پی پی پی اور تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشوروں میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ کے لیے کوششوں کے وعدے کیے اور انتخابی مہم کے جلسوں میں بھی گاہے بگاہے کشمیر زندہ رہا ۔
2018 کی انتخابی سیاست سے مسئلہ کشمیر کا غائب ہونا پاکستانی کشمیر ، سیاسی و مذہبی قیادت اور لوگوں کے لیے باعث حیرت و تشویش ہے ۔
تحریک انصاف پاکستانی کشمیر کی خواتین ونگ کی سربراہ تقدیس گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی سرحد پر درپیش خطرات کے پیش نظر مسئلہ کشمیر اب قو می سیاسی افق پر پہلی ترجیح نہیں رہا۔ اس کی جگہ اب معاشی اور روزگار کے مسائل نے لے لی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں کشمیر اور اسلام کے نام پر جذبات سے ہٹ کر اب وہ بے روزگاری، پانی، امن وامان اور معاشی زبوں حالی جیسے اصل مسائل پر توجہ دے رہے ہیں ۔
تقدیس گیلانی نے کہا کہ دوسری طرف بھارت میں بھی لوگ حکومت کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کے بجائے اصل مسائل پر توجہ دے ۔
انہوں نے کہا کہ سب سیاسی جماعتوں کی طرف سے کشمیر کو نظرانداز کیا گیا ہے ۔
جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے صدر اور قانون ساز اسمبلی کے رکن سردار خالد ابراھیم کہتے ہیں کہ کشمیرکے لیے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا نعرہ دینے والی پیپلزپارٹی نے انتخابات 2018 کے منشور میں آزادجموں کشمیر کو ایک مسئلہ قرار دیا ہے جس سے انکی اس تنازعہ کے بارے میں پالیسی کا پتہ چلتا ہے ۔
اسلام آباد میں مقیم پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والے تاجر چوہدری منظور کہتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ پاکستان کے زیادہ تو مسائل کی جڑ کشمیر کا مسئلہ ہے اور بنیاد ٹھیک کیے بغیر پاکستان کے مسائل حل نہیں ہونگے ۔
کشمیر کی پاکستان اور بھارت دونوں سے علیحدگی کی حامی تنظیم جموں کشمیر لبریشن پاکستانی کشمیر زون کے سربراہ ڈاکٹر توقیر گیلانی کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں مسئلہ کشمیر اب بہت پیچھے چلاگیا ہے اور ماضی میں سیاستدانوں نے اس مسئلے کو اتنا گھسیٹا ہے کہ اب ووٹر اس میں دلچسپی نہیں لیتا ۔
معروف کالم نگار عبدالحکیم کشمیری کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن قومی ایشوز پر نہیں ہورہا۔ اس وقت مسئلہ کشمیر ،پانی ،بجلی کا بحران اور زرعی اصلاحات پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں جن کا ان انتخابات میں ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں تنازعہ کشمیر کو ہمیشہ مخالف کے میڈیا ٹرائل کے لیے استعمال کیا گیا ۔
چناری قصبے کے طالبعلم عبدالشکور کہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو انتخابات میں نظرانداز کرنا انکے لیے باعث حیرت ہے ۔
معروف کشمیری تجزیہ کا عارف بہار کاکہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی سیاست سے غائب ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کو کشمیر پر جذباتی کر کے ووٹ لینے سے بہتر ہے کہ لوگوں کو درپیش سلگتے مسائل کے حل کے لیے بات کی جائے۔
دارالحکومت مظفرآباد میں میڈیا سے منسلک خضر حیات عباسی کہتے ہیں کہ کرپشن، سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جیسے کور ایشوز پاکستان کی انتخابی سیاست پر غالب آگئے ہیں جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر دب گیا ہے۔