ایسوسی ایٹڈ پریس نےپاکستان میں جمعرات کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بارے میں، اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔ لیکن بظاہر الیکشن کی فضا اور ماحول دکھائی نہیں رہا۔
بہت سے ووٹر مایوسی کا شکار ہیں اور بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ آیا سیاسی جھگڑوں، پیچیدہ معاشی صورت حال اور دوبارہ جنم لینے والی عسکریت پسندی میں گھرے اس ملک میں 8 فروری کے انتخابات کوئی حقیقی تبدیلی لا سکیں گے۔
ان انتخابات میں 44 سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں جو قومی اسمبلی کی 266 نشستوں کے لیے مقابلہ کریں گی،جن میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص 70 نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔
اسمبلی میں پہنچنے والے ارکان ملک کے اگلے وزیر اعظم کا انتخاب کریں گے اور اگر کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پاتی تو سب سے زیادہ سیٹیں جتنے والی پارٹی کے پاس مخلوط حکومت بنانے کا موقع موجود ہو گا۔
وزیراعظم کے عہدے کا ایک ہی دعویدار کیوں؟
اے پی کے مطابق بہت سے تجزیہ کاروں کے خیال میں موجودہ حالات میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر وزیراعظم کے عہدے کے لیے ایک ہی ممکنہ دعویدار دکھائی دیتا ہے اور وہ ہیں نوازشریف جو اس سے قبل تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
اپنے عہدے کی تیسری مدت کے دوران انہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے نااہل قرار دے دیا تھا اور مختلف مقدمات میں انہیں جیل کی سزائیں ہو گئیں تھیں۔ قید کے دوران بیماری کے علاج کے لیے وہ لندن چلے گئے اور انہوں نے لگ بھگ چار سال وہیں گزار دیے۔
وہ گزشتہ اکتوبر کو ملک واپس آئے ۔ چند ہفتوں کے اندر ان کی سزائیں ختم کر دی گئیں جن میں انتخابات میں شرکت کے لیے تاحیات نااہلی بھی شامل تھی۔
ان کے حریف سابق وزیر اعظم عمران خان ایک سابق کرکٹ ہیرو ہیں۔ وہ کرپشن کے خلاف جنگ کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے اور اتفاق یہ ہے کہ اب وہ کرپشن سمیت مختلف مقدمات میں جیل کی سزائیں کاٹ رہے ہیں جب کہ ان کے خلاف درجنوں مقدمے ابھی مختلف مراحل میں ہیں۔ گویا دونوں کردار ایک دوسرے کی جگہ پر چلے گئے ہیں۔
عمران خان کو اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے باعث اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔ جب کہ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ایک بڑی سازش کے ذریعے جس میں ایک عالمی طاقت بھی شامل ہے اقتدار سے ہٹایا گیا ہے۔
وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہو چکے ہیں۔
اے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو نوجوانوں میں مقبولیت حاصل ہے جو اس ملک میں ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ لیکن زیادہ تر ووٹر یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہے۔ اس لیے ووٹ ڈالنے کے معاملے میں ان میں سے اکثر گو مگو کی کیفیت میں ہیں۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان کا ووٹ شاید کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گا۔
پاکستان کو سیاسی طور پر مضبوط حکومت کی ضرورت ہے
پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایک اہم خطے میں واقع ہے۔ یہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس کی سرحدیں بھارت، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں، جن کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔
پاکستان کو اندرونی طور پر عسکریت پسندی کا سامنا ہے اور حالیہ عرصے میں سیکیورٹی فورسز پر عسکری گروپوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ عسکریت پسندوں کو پڑوسی ملکوں میں پناہ اور وسائل ملتے ہیں۔
پاکستان کی آئندہ حکومت کے لیے پڑوسیوں سے تعلقات، عسکریت پسندی پر کنٹرول اور ملک کے معاشی حالات کو بہتر بنانا بڑے چیلنج ہوں گے۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کےمطابق تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر نئی حکومت ان چیلنجز پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کا فائدہ صرف عسکریت پسندوں کو ہو گا۔
عسکری امور کی اسکالر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات میں اضافہ ہوتا ہے تو ملک میں عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ناراض ہیں۔
پاکستان کی انتخابی تاریح الزامات سے بھری ہے
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات پر ہمیشہ سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ بیلٹ بکس کو جعلی ووٹوں سے بھرنا، جعلی ووٹوں کا اندراج کرانا، مخالفین کو ڈرانا، دھمکانا اور پولنگ اسٹشن پر آنے سے روکنے اور دھوکہ دہی کی دوسری کہانیاں عام ہیں، جس کی وجہ سے انتخاب ہارنے والا کبھی اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا۔
لندن میں قائم تھنک ٹینک چتھم ہاؤس کی ایک ایسوسی ایٹ فیلو فرزانہ شیخ کہتی ہیں کہ اس الیکشن میں کچھ نیا نظر نہیں آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لیے صورت حال میں کچھ بھی حیران کن نہیں ہے۔ لیکن اس بار ماحول پہلے سے بہت زیادہ پولرائزڈ ہے اور تقسیم بہت زیادہ ہے۔
نوجوان الیکشن کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے
پاکستان ڈیجیٹل نیوز نیٹ ورک سینٹرم میڈیا کے بانی طلحہ احد کہتے ہیں کہ نوجوان الیکشن کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ وہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ سب کچھ طے شدہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ فوج کے ساتھ کوئی ڈیل ہوئی ہے جس کی وجہ سے نواز شریف واپس آئے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوریت پر لوگوں کا یقین بہت کم ہے۔
جمہوریت میں ناکامی کا فائدہ عسکریت پسندوں کو ہو گا
پاکستان میں سرگرم اسلامی عسکری گروپ اور علما کا ایک طبقہ پاکستان کی روزمرہ زندگی پر اپنی تشریح کردہ شریعت مسلط کرنا چاہتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار یاسمین کہتی ہیں کہ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اور نظام پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد سے انتہاپسند اسلامی عسکریت پسندوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو عوام کا اعتماد بحال کر سکے، روزگار کے مواقع فراہم کر سکے اور لوگوں کی بنیادی ضرورت تک رسائی ممکن بنا سکے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو تحفظ کے احساس کی ضرورت ہے۔" اس کے بغیر ہم پھسلن والی ایک ڈھلوان سظح پر کھڑے ہیں۔"
(اس آرٹیکل کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)
فورم