پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت بحران کے شکار بجلی کے شعبے کو ایک ’’مثالی‘‘ شعبہ بنانے کی طرف گامزن ہے لیکن فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لوڈ شیڈنگ میں کب اور کتنی کمی واقع ہوگی جب کہ آنے والے مہینوں میں بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ بھی ناگزیر ہے۔
منگل کواسلام آباد میں بجلی کے شعبے میں اصلاحات کے موضوع پر دو روزہ ورکشاپ کے اختتام پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق نے نرخوں میں اضافے کے بارے میں پوچھے گیے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’پوری دنیا میں یہی ہوتا ہے ، ہمارے ہاں بھی یہی ہوگا، اضافہ ایک دم تونہیں ہوگا لیکن بالآخر تو ہوگا‘‘
واپڈا کے چیئرمین شکیل درانی کا کہنا تھا کہ ادارہ اگلے ڈیڑھ سال میں پن بجلی کے ایسے کئی منصوبے شروع کرنے جا رہا ہے جن سے پانی کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں دس ہزار میگا واٹ تک کا اضافہ ہوگا۔’’ان میں سے کئی منصوبے تو ایسے ہیں جو پہلے ہی شروع کیے جا چکے ہیں جن میں نیلم جہلم، منڈا ڈیم ، تربیلا کا توسیعی منصوبہ اور کرم ٹنگی ڈیم کا منصوبہ شامل ہیں۔ ‘‘
تاہم اس سوال پر کہ ان منصوبوں کے نتیجے میں ملک میں بجلی کا بحران کس حد تک حل ہو گا انھوں نے کوئی ٹائم فریم دینے سے گریز کیا اور کہا ’’ظاہر ہے اس میں وقت تو لگتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت صحیح راہ پر چل ری ہے ، بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کو خود مختاری دی جا رہی ہے ، ان کی استعداد میں اضافہ اور خسارے میں کمی کی جاری رہی ہے‘‘۔
واپڈا کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پن بجلی یعنی ہائیڈل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی موجودہ دستیاب صلاحیت تقریباً چھ ہزار چار سو میگا واٹ ہے جو کل پیداوار کا تیس فیصد سے کم بنتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگلے سات سے آٹھ سالوں کے دوران ہائیڈل کے ذریعے بجلی کی پیداوار تقریباً ساٹھ فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
حال ہی میں بجلی کے نرخوں میں مزید دو فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سوا دو سو ارب روپے سے زائد خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کے پاس مزید اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔