ایسے میں جب سیاسی کشیدگی عروج پر ہے، معاشی حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں، ملک کے دو صوبوں بشمول وفاقی دارلحکومت میں امن و امان کے قیام کے لئے فوج کو طلب کرلیا گیا ہے، سپریم کورٹ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں صوبائی انتخابات کرانے کے لئے اٹل ہے اور حکومت اس سے انکاری جبکہ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپوزیشن لیڈر عمران خان کو قید میں رکھنے میں ناکام نظر آرہی ہے اور عمران خان کو ان کے خلاف چند ماہ میں درج 120 کیسز میں ضمانت مل چکی ہے تو ایسے میں حکومت کے پاس حالات پر قابو پانے کے لئے کیا راستے بچے ہیں؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں ایسے وقت میں حکومت کی جانب سے ایمرجنسی کا نفاذ کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے دسویں حصے میں ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق پورا باب موجود ہے جس میں آئین کی چھ شقیں اس سے متعلق وضاحت کرتی ہیں۔ ایمرجنسی کیا ہے اور یہ کن حالات میں لگائی جاتی ہے اور اس کے نافذ کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ ایسے ہی مختلف سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہم نے مختلف ماہر قانون اور مبصرین سے بات کی۔
جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی اس وقت لگائی جاتی ہے جب حکومتوں کے قابو سے امن و امان کے حالات باہر ہوجاتے ہیں۔ ایمرجنسی کے نفاذ سے عدالتوں کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں۔ اس کے نفاذ سے ہائی کورٹس آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت بنیادی حقوق سےمتعلق درخواستوں کی سماعت نہیں کرپاتیں۔ ملک میں بنیادی حقوق جیسا کہ جان و مال کے تحفظ کے سلسلے میں ریاستی ذمہ داری، بلاجواز گرفتاری یا حراست میں رکھنا، آزادی اظہار رائے، نقل و حرکت کا حق اور دیگر ایسے حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔ اور اگر حکومت سمجھے تو ایمرجنسی ایک سال تک برقرار رکھی جاسکتی ہے۔
لیکن جسٹس شائق عثمانی کے خیال میں فی الحال تو ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی کہ صوبائی حکومتیں امن کے قیام میں ناکام ہوچکی ہوں۔ لیکن جس طرح حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اس صورتحال سے ایسا لگتا ہے کہ آگے جاکر یہ مزید بگڑ جائے گی۔ اور اگر صورتحال خراب ہوئی تو حالات خانہ جنگی کی جانب جاسکتے ہیں۔ ایسے میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے امکانات کافی زیادہ لگتے ہیں۔ کیونکہ حکومت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اپوزیشن کی پوزیشن مزید مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔
جسٹس شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایمرجنسی کا مقصد ملک کے اندر نیشنلائزیشن کی پالیسی کے خلاف احتجاج کو قابو میں لانا تھا۔
ایک اور ماہر قانون اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت ایمرجنسی کے نفاذ کے لئے وفاقی کابینہ صدر کو ایڈوائس ارسال کرے گی۔ اور اگر صدر اس سے متفق نہ ہوں تو وہ یہ ایڈوائس دوبارہ غور کے لئے کابینہ کو 15 روز میں واپس بھیج سکتا ہے۔ اگر کابینہ دوبارہ یہی ایڈوائس صدر کو بھجواتی ہے تو اس صورت میں صدر کو دس روز کے اندر اس پر عمل درآمد کرنا لازم ہے۔
اس کے بعد صدر کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا جہاں حکومت کو سادہ اکثریت سے اس کی دس روز میں منظوری حاصل کرنی ہوگی۔ تب جا کر اس کا نفاذ عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ یوں مجموعی طور پر ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ میں تقریبا 35 روز کا وقت درکار ہوتا ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے مزید بتایا کہ ان کے خیال میں رواں ہفتے جس طرح کے پُرتشدد ہنگامے اور جلاو گھیراؤ کے واقعات ہوئے ہیں تو اس سے وہ فضاء تو بن چکی ہے جس میں حکومت کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بتایا کہ آئین میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لئے واضح ہدایات موجود ہیں۔ لیکن 3 نومبر 2007 کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کئے گئے اقدامات آئین سے ماورا اقدامات تھے جس میں انہوں نے آئین ہی کو معطل کردیا تھا۔ اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف نے آئین کو دو بار معطل کیا، پہلے 12 اکتوبر 199 کو اور پھر 3 نومبر 2007 کو۔
جب یہی سوالات سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سینیٹر کامران مرتضیٰ سے پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی اس وقت لگائی جاسکتی ہے جب سیاسی یا معاشی معاملات نہ چلائے جارہے ہیں۔ اور اس کا راستہ پارلیمان سے ہوکر جاتا ہے۔ اسی لئے یہ جمہوری ریاستوں میں انتہائی خراب حالات کو قابو کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آئین کے تحت اگرچہ ایسے وقت میں ہائی کورٹس تو بنیادی حقوق سے متعلق درخواستوں کی سماعت نہیں کرپاتیں لیکن سپریم کورٹ پھر بھی آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ایسی درخواستوں کی سماعت کرسکتی ہے۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ملک میں حکومت کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کی اطلاعات کو سراسر بے بنیاد قرار دیا ہے۔
سیاسی مبصر اور مصنف ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ سن 1965 میں جنرل ایوب خان نے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت ایمرجنسی لگائی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کسی کو بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ انہی قوانین کے تحت ایوب خان، پھر یحیحیٰ خان اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے ان کا اپنے مخالفین کے خلاف بدترین استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے بنیادی انسانی اور قانونی حقوق سلب کرنے کے اقدامات کسی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا۔