پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ملک کے ڈیفالٹ کے امکان کو مسترد کر دیا ہے لیکن معاشی ماہرین کہتے ہیں آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہونے سے پاکستان کے لیے مشکل صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے عائد تمام پیشگی اقدامات کرکے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پہلے ہی پوری کر دی ہیں، اب حکومت مزید نہیں کرسکتی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے مئی اور جون میں 3.7 ارب ڈالر کی ادائیگیاں بروقت کیے جانے کا انتظام پہلے ہی کرلیا ہے اور دسمبر تک کی ادائیگیوں کا بندوبست بھی کرلیا ہے۔
رواں ہفتے عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر بیرونی ادائیگیاں نہ کرنے کی صورت میں ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔
موڈیز کا اپنی تازہ ترین رپورٹ میں مزید کہنا تھا کہ رواں سال جون کے بعد پاکستان کی فنانسنگ غیر یقینی ہے۔ تاہم وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں دوست ممالک کی جانب سے فنانسنگ کے جو وعدے کیے گئے وہ جلد پورے ہوں گے اس لیے بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کو پاکستان کے ڈیفالٹ سے متعلق باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔
اسحاق ڈار کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے بیل آؤٹ پیکج کے طویل عرصے سے رکے ہوئے نویں جائزے کی کامیاب تکمیل کے لیے اہم اضافی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔
جمعرات کو واشنگٹن میں ہونے والی پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کے نمائندے کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف کی جانب سے زیر التواء بیل آؤٹ فنڈز کے اجراء کی منظوری سے قبل اضافی فنانسنگ کے وعدوں کا حصول ضروری ہے جو ادائیگیوں کے توازن کے شدیدبحران کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرض پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان کے دوست ممالک سے اضافی فنڈنگ کی شرط عائد کی گئی تھی۔ حکومت کے مطابق اس شرط کے تحت سعودی عرب دو ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارت ایک ارب ڈالر دینے پر رضامند ہوگئے ہیں جس کی تحریری ضمانت بھی فنڈ کو فراہم کردی گئی ہے۔
'آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل سے حکومت کو مشکل بجٹ پیش کرنا پڑ سکتا ہے'
دوسری جانب آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ پاکستان کو آئندہ ادائیگیوں کے لیے تین نہیں بلکہ چھ ارب ڈالر کی اضافی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ اور اس کا انتظام کرنا بھی حکومتِ پاکستان ہی کی ذمہ داری ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سمیت کئی معاشی ماہرین حالیہ عرصے کے دوران کہتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پہلے ہی سے مطلع کررکھا تھا کہ پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی اضافی فنڈنگ کی ضرورت ہوگی۔
معاشی تجزیہ کار اور پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں آئی ایم ایف کا قرض پروگرام پہلے ہی 30 جون کو ختم ہونے والا ہے، لیکن اب تک پروگرام کا نواں جائزہ، جو اکتوبر میں دستخط ہونے کے بعد 1.1 ارب ڈالر ملنے تھے، وہ بھی مکمل نہیں ہوا۔ جب کہ دسواں اور گیارہواں جائزہ اور اس کے بعد رقم کا اجراء ہوتا نظر نہیں آرہا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں یہ الیکشن کا سال ہے اور حکومت کو آنے والے مہینے میں بجٹ بھی دینا ہے۔ اگر حکومت کو آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرنا پڑا تو اسے ایک ایسا بجٹ دینا ہوگا جس میں میں عوام کے لیے ریلیف کافی کم ہو۔
ڈاکٹر اکرام کے بقول، "حقیقت یہ ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے لیے حکومت کے پاس رقم دستیاب نہیں جب کہ کمرشل قرضے لینے کے لیے بھی حکومتی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ ایسے میں حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ بجٹ تو پیش کردے لیکن باقی کے معاملات آنے والی حکومت پر چھوڑ دے۔ "
حکومتِ پاکستان کو امید ہے کہ رواں مالی سال کے آخری دو ماہ یعنی مئی اور جون میں بیرونی فنانسنگ کی ضروریات تو باآسانی پوری ہو جائیں گی۔ تاہم جون کے بعد پاکستان کی فنانسنگ اب تک غیر یقینی ہے۔ اور ایسے میں پاکستان زرِمبادلہ کے کمزور ذخائر کی وجہ سے ڈیفالٹ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے لیے سال 2019 میں آئی ایم ایف کا شروع ہونے والا قرض پروگرام ملک کے لیے 23 واں معاشی پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر چھ ارب ڈالر کا قرضہ ملنا تھا۔ آخری بار گزشتہ سال کے وسط میں ، ساتواں اور آٹھواں جائزہ مکمل ہونے پر پاکستان کو 1.7 ارب ڈالر کی رقم ملی تھی جس کے بعد اکتوبر میں اگلا جائزہ مکمل ہونا تھا۔ لیکن اس وقت سے یہ پروگرام اب تک تعطل کا شکار ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو مزید 2.2 ارب ڈالر ملنا باقی ہیں۔لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم کی جانب سے مختلف کڑی شرائط کا سامنا کرنے کے ساتھ ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے مزید چھ ارب ڈالرز کے حصول کی شرط بھی رکھی گئی تھی۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کا یہ پروگرام شاید مکمل ہونے سے قبل ہی ختم ہوجائے کیوں کہ اس پروگرام کی معیاد 30 جون کو ختم ہورہی ہے۔
معاشی ماہر ڈاکٹر اکرام کہتے ہیں حکومت کو ادراک ہے کہ اگر آج آئی ایم ایف پروگرام کامیابی سے مکمل نہ کیا گیا تو آنے والے پروگرام میں آئی ایم ایف اور بھی سخت شرائط عائد کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ تین برسوں میں پاکستان کو لگ بھگ 25 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہوں گے۔ ایسے میں موجودہ حکومت تو ڈیفالٹ سے بری الذمہ ہوسکتی ہے لیکن آنے والے وقت میں پاکستان پر ڈیفالٹ کے خدشات کی تلوار لٹکتی رہے گی۔