پاکستان میں پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور عوام میں اس پر پائے جانے والے شدید ردعمل کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں صارفین کے لیے توانائی کا حصول مزید مہنگا ہوسکتا ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر عطااللہ شاہ نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان اپنی کل توانائی کا 70فیصد تیل اور اور قدرتی گیس سے حاصل کرتا ہے جس کا ایک بڑا حصہ درآمد کیا جاتا ہے لہذا جب بھی عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو پاکستانی صارفین پر اس کے اثرات ناگزیر ہیں۔
پروفیسر عطا کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران سے نمٹنے اور عوام پر اس کے بھاری نرخوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پن بجلی کے ذرائع پر انحصار بڑھایا جائے اور اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں جن کے لیے نسبتاً کم سرمایہ اور وسائل درکار ہیں۔ اس وقت ملک میں توانائی کی کل پیداوار میں پن بجلی کا دخل 29فیصد ہے ۔
ماہر توانائی نے کہا کہ پاکستان میں جہاں 90فیصد آبادی کو سال کے 280دن سورج کی روشنی دستیاب رہتی ہے، قابل تجدید توانائی کی ترقی کے وسیع امکانات ہیں لیکن ان کے مطابق اس ضمن میں حکومتی سرپرستی اور تحقیق نہایت ضروری ہے۔
نیشنل انرجی کنزرویشن سینٹر کے سربراہ فرید اللہ جان کا کہنا ہے کہ حکومت قابل تجدید سمیت تمام ذرائع بروئے کار لاکر توانائی کا بحران حل کرنے اور اس کا حصول عوام کی دسترس میں رکھنے کے لیے کوشاں ہے تاہم ان کے مطابق یہ تب ہی ممکن ہے جب توانائی کی بچت کے اصولوں پر معاشرے کا ہرطبقہ عمل پیرا ہو۔
انھوں نے کہا ”مثال کے طور پر اگر ہم صرف ٹرانسپورٹ سیکٹر میں گاڑیوں کے معائنے کے نظام کو مئوثر بنالیں تو گاڑیاں درست حالت میں رہنے سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی بلکہ 30فیصد تک ایندھن کی بھی بچت ہوسکے گی۔“
ہفتے کو اسلام آباد میں معقدہ ایک سیمینار میں عالمی تعان کے جاپانی ادارے یعنی JICAکے نمائندے Takagtoshi Nishikataنے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل کے منصوبوں خاص طور پر پن بجلی کے منصوبوں کے لیے بھرپور امداد دے گا۔