اسلام آباد —
وفاقی حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو زیر گردش قرضوں کی مد میں 322 ارب روپے ادا کر دیے جس سے سرکاری عہدیداروں کے بقول بجلی کی قلت میں ’’قدرے‘‘ کمی آئے گی۔
وفاقی سیکرٹری خزانہ وقار مسعود خان نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ملک میں بجلی کے بحران کی ایک بڑی وجہ ان کمپنیوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی ہے جو کہ اپنی گنجائش سے کم بجلی پیدا کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کر چکا تھا اس لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر تمام بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو یہ ادائیگی جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کردی گئی ہے۔
’’سب سے پہلے ان کی جتنی گنجائش ہے وہ اس کے مطابق بجلی پیدا کریں گے تاکہ مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ چار کمپنیوں نے حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ادائیگی کی گئی تو وہ اپنے پلانٹس تیل سے کوئلہ پر منتقل کردیں گے۔‘‘
حکام کے مطابق حکومت پاکستان پر توانائی کے شعبے میں مجموعی زیر گردش قرضہ تقریباً 500 ارب روپے کا ہے اور وزیر خزانہ اسے دو ماہ میں ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
سیکرٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں ان ادائیگیوں سے متعلق اپنی درخواستیں واپس لیں اور آئندہ ایسے معاملات کو حکومت اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔
انہوں نے بتایا کہ ادائیگیوں کے بعد حکومت کو امید ہے کہ ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں 1500 میگا واٹ کا اضافہ ہوگا۔
حکومت کے مطالبات پورے نا کرنے کی صورت میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے خلاف اقدامات کے بارے میں وقار مسعود خان کا کہنا تھا کہ ’’جو (پہلے سے) معاہدے ہیں اس میں ذمہ داریاں بہت اچھی طریقے سے لکھی گئی ہیں اس کے تحت کارروائی ہوگی۔ ایک طرح سے اعادہ ہے تجدید عہد ہے کہ جی آپ رضا کارانہ طور پر اور مستعدی کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کریں۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق پاکستان میں توانائی کا بحران ختم کرنے اور بجلی کی قیمت میں کمی کے لیے نئی پالیسی کے تحت زیادہ توجہ توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع پر دی جائے گی۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور بعض ماہرین کہتے ہیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اس شعبے میں ان کے بقول غیر منصافانہ مراعات کو ختم اور متعلقہ اداروں کو موثر اور فعال بنانے کے لیے بھر پور اقدامات کرنا ہوں گے۔
وفاقی سیکرٹری خزانہ وقار مسعود خان نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ملک میں بجلی کے بحران کی ایک بڑی وجہ ان کمپنیوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی ہے جو کہ اپنی گنجائش سے کم بجلی پیدا کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کر چکا تھا اس لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر تمام بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو یہ ادائیگی جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کردی گئی ہے۔
’’سب سے پہلے ان کی جتنی گنجائش ہے وہ اس کے مطابق بجلی پیدا کریں گے تاکہ مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ چار کمپنیوں نے حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ اگر ادائیگی کی گئی تو وہ اپنے پلانٹس تیل سے کوئلہ پر منتقل کردیں گے۔‘‘
حکام کے مطابق حکومت پاکستان پر توانائی کے شعبے میں مجموعی زیر گردش قرضہ تقریباً 500 ارب روپے کا ہے اور وزیر خزانہ اسے دو ماہ میں ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
سیکرٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں ان ادائیگیوں سے متعلق اپنی درخواستیں واپس لیں اور آئندہ ایسے معاملات کو حکومت اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔
انہوں نے بتایا کہ ادائیگیوں کے بعد حکومت کو امید ہے کہ ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں 1500 میگا واٹ کا اضافہ ہوگا۔
حکومت کے مطالبات پورے نا کرنے کی صورت میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے خلاف اقدامات کے بارے میں وقار مسعود خان کا کہنا تھا کہ ’’جو (پہلے سے) معاہدے ہیں اس میں ذمہ داریاں بہت اچھی طریقے سے لکھی گئی ہیں اس کے تحت کارروائی ہوگی۔ ایک طرح سے اعادہ ہے تجدید عہد ہے کہ جی آپ رضا کارانہ طور پر اور مستعدی کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کریں۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق پاکستان میں توانائی کا بحران ختم کرنے اور بجلی کی قیمت میں کمی کے لیے نئی پالیسی کے تحت زیادہ توجہ توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع پر دی جائے گی۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور بعض ماہرین کہتے ہیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اس شعبے میں ان کے بقول غیر منصافانہ مراعات کو ختم اور متعلقہ اداروں کو موثر اور فعال بنانے کے لیے بھر پور اقدامات کرنا ہوں گے۔