رواں سال بھی موسم سرما میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے گیس کی طویل بندش پریشانی کا باعث ہے اور اس سلسلے میں ملک بھر خصوصاً پنجاب کے شہروں میں گیس کی بندش کے خلاف مظاہرے معمول بن گئے ہیں۔ لیکن قدرتی گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد اب بجلی کی غیر اعلانیہ بندش نے عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی نوید قمر نے منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے حالیہ دنوں میں ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ جلد ختم ہو جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ نہروں کی صفائی کے باعث ڈیموں سے پانی کے اخراج میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور حکومت اس دوران بجلی کی طلب و رسد کا فرق کم کرنے کے لیے فرنس آئل اور گیس سمیت متبادل ذرائع استعمال کرے گی۔
’’یہ (لوڈشیڈنگ) ایک عارضی معاملہ ہے کیونکہ آج کل نہریں بند ہیں ہم اگلے مہینے کے اندر اندر اس پر قابو پا کر دوبارہ لوڈشیڈنگ کے بغیر والے فیز میں چلے جائیں گے‘‘۔
پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار کا صرف 35 فیصد پن بجلی سے حاصل کیا جاتا ہے جو بجلی کی پیداوار کا نسبتاً سستا ذریعہ ہے۔ جبکہ باقی ماندہ بجلی فرنس آئل اور گیس سے چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل کی جاتی ہے۔
ماہرین کے خیال میں فرنس آئل جیسے مہنگے ذریعے سے حاصل کی جانے والے بجلی صارفین کی قوت خرید سے باہر ہونے کے باعث بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے رجحانات میں اضافہ ہوا ہے۔
نوید قمر نے بتایا کہ بجلی پیدا کرنے والی اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں میں نجی شعبے کی مشاورت سے بہتری لائی جا رہی ہے اور بجلی کی چوری سمیت پیداواری صلاحیت بہتر کرنے کی بھی کوشیش کی جا رہی ہے۔
’’ہم نجی شعبے کی مدد سے حکومت کے جنریٹنگ کمپنی اور بجلی کے گھر میں نیا پیسہ لگا کر اس کی کارکردگی بہتر بنائیں گے۔ تاکہ بجلی کی دوگنی تگنی آوٹ پٹ لے سکیں۔‘‘
مرکزی بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں بجلی کی چوری کی اوسط شرح 21 فیصد ہے۔
وفاقی وزیر نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ملک میں بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت مشکل اقتصادی حالات میں بھی بجلی کے صارفین کو اربوں روپے کی سبسڈی یا رعایت دے رہی۔
مرکزی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق توانائی کی کمی سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات سے خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے اور توانائی کے شعبے میں حکومت کی طویل مدتی منصوبہ بندی ناقص ثابت ہوئی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری شعبے میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیے موجود انفراسٹیکچر یا ڈھانچہ بھی زیادہ موثر انداز میں کام نہیں کر رہا ہے۔