اسلام آباد —
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے قبائلی علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت کے دیرینہ مطالبے پر دو سال قبل صدر آصف علی زرداری نے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے نفاذ کی منظوری دی تھی اور اب مئی میں متوقع عام انتخابات میں پہلی مرتبہ ملک کی سات قبائلی ایجنسیوں میں سیاسی جماعتوں کے اُمیدوار حصہ لے سکیں گے۔
اس اقدام کا عمومی طور پر خیرمقدم کیا گیا ہے اور قانون سازوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے قبائلی علاقوں کے عوام کو سیاسی دھارے میں شامل ہو کر ترقی کا موقع میسر آئے گا۔
قبائلی علاقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے وابستہ ہونے والے اخونزادہ چٹان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کے علاقے پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
’’سیاسی جماعتیں اپنے اُمیدوار کو ٹکٹ دیں گی اور وہ لوگوں کے پاس جائیں گے تو لوگوں میں بھی آگاہی پیدا ہوگی۔‘‘
حزب مخالف کی جماعت جمیعت العلما السلام (ف) کے سینیٹر مولانا غفور حیدری کہتے ہیں کہ علاقائی اقدار تو اپنی جگہ لیکن سیاسی نظام سے قبائلی علاقے کے لوگوں کو مرکزی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ملے گا۔
ملک کے ان قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کے باعث یہاں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے لیکن اراکین پارلیمان کی اکثریت کا کہنا ہے کہ خطرات اور خدشات کے باوجود انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔
اخونزادہ چٹان کہتے ہیں کہ قبائلی علاقے میں بعض عناصر سیاسی و قانونی اصلاحات سے ناخوش ہیں لیکن عوام کو ووٹ کا جو حق ملا ہے اس پر عمل درآمد ضرور ہونا چاہیئے۔
’’کچھ لوگ ہیں جنہیں ایف سی آر میں اصلاحات سے تکلیف ہو رہی ہے اور نقصان ہوا ہے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ اصلاحات کا عمل واپس لیا جائے اور انتخابات بھی نہ ہوں۔ وہ خودساختہ جرگے بناتے ہیں اور وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ پہلے امن دیا جائے پھر انتخابات کی اجازت تو یہ کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے جو قبائلی علاقوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
مولانا غفور حیدری کا اس بارے میں کہنا ہے کہ’’دنیا کے کئی ممالک میں حالت جنگ میں بھی انتخابات ہوئے ہیں اور یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ کیا انتظام کرتا ہے کہ الیکشن فاٹا سمیت پورے ملک میں پرامن طریقے سے ہو سکیں۔‘‘
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ قبائلی علاقوں میں سیاسی عمل کی اجازت خوش آئند سہی لیکن شدت پسندوں کی مخالفت اور امن و امان کی ناقص صورتحال بلاشبہ کھلے عام سیاسی سرگرمیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوں گی۔
اس اقدام کا عمومی طور پر خیرمقدم کیا گیا ہے اور قانون سازوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے قبائلی علاقوں کے عوام کو سیاسی دھارے میں شامل ہو کر ترقی کا موقع میسر آئے گا۔
قبائلی علاقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے وابستہ ہونے والے اخونزادہ چٹان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کے علاقے پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
’’سیاسی جماعتیں اپنے اُمیدوار کو ٹکٹ دیں گی اور وہ لوگوں کے پاس جائیں گے تو لوگوں میں بھی آگاہی پیدا ہوگی۔‘‘
حزب مخالف کی جماعت جمیعت العلما السلام (ف) کے سینیٹر مولانا غفور حیدری کہتے ہیں کہ علاقائی اقدار تو اپنی جگہ لیکن سیاسی نظام سے قبائلی علاقے کے لوگوں کو مرکزی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ملے گا۔
ملک کے ان قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کے باعث یہاں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے لیکن اراکین پارلیمان کی اکثریت کا کہنا ہے کہ خطرات اور خدشات کے باوجود انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔
اخونزادہ چٹان کہتے ہیں کہ قبائلی علاقے میں بعض عناصر سیاسی و قانونی اصلاحات سے ناخوش ہیں لیکن عوام کو ووٹ کا جو حق ملا ہے اس پر عمل درآمد ضرور ہونا چاہیئے۔
’’کچھ لوگ ہیں جنہیں ایف سی آر میں اصلاحات سے تکلیف ہو رہی ہے اور نقصان ہوا ہے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ اصلاحات کا عمل واپس لیا جائے اور انتخابات بھی نہ ہوں۔ وہ خودساختہ جرگے بناتے ہیں اور وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ پہلے امن دیا جائے پھر انتخابات کی اجازت تو یہ کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے جو قبائلی علاقوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
مولانا غفور حیدری کا اس بارے میں کہنا ہے کہ’’دنیا کے کئی ممالک میں حالت جنگ میں بھی انتخابات ہوئے ہیں اور یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ کیا انتظام کرتا ہے کہ الیکشن فاٹا سمیت پورے ملک میں پرامن طریقے سے ہو سکیں۔‘‘
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ قبائلی علاقوں میں سیاسی عمل کی اجازت خوش آئند سہی لیکن شدت پسندوں کی مخالفت اور امن و امان کی ناقص صورتحال بلاشبہ کھلے عام سیاسی سرگرمیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوں گی۔