رسائی کے لنکس

ڈاکٹر شکیل آفریدی: مقدمے کی دوبارہ سماعت کی اپیل خارج


شکیل آفریدی (فائل فوٹو)
شکیل آفریدی (فائل فوٹو)

تین رکنی فاٹا ٹربیونل نے کمشنر پشاور کے فیصلے کو مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ واضح نہیں کہ مقدمے کی سماعت پولیٹیکل ایجنٹ کرے گا یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ۔

پاکستان میں تین رکنی فاٹا ٹربیونل نے شدت پسندوں سے روابط اور دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اُس درخواست کو سماعت کے بعد خارج کر دیا ہے جس میں اُنھوں نے اپنے خلاف قائم مقدمے کی ازسر نو کارروائی کی درخواست کی تھی۔

گزشتہ سال خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے ڈاکٹر آفریدی کو کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے ساتھ روابط اور اس تنظیم کی مالی اعانت کرنے کے جرم میں 33 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

جس کے خلاف اپیل کی درخواست پر رواں سال کمشنر پشاور نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے پولیٹیکل انتظامیہ کو مقدمے کی کارروائی دوبارہ شروع کرنے کا کہا تھا۔

بدھ کو فرنٹیئرکرائمز ریگولیشن ٹربیونل نے کمشنر پشاور کے فیصلے کو مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ واضح نہیں کہ مقدمے کی سماعت پولیٹیکل ایجنٹ کرے گا یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ۔

شکیل آفریدی کے وکلاء نے اس ٹربیونل میں کمشنر پشاور کے فیصلے کی روشنی میں نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی تھی اور اس کے فیصلے تک وہ پولیٹکل ایجنٹ کی عدالت میں پیش ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

شکیل آفریدی پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی میں مارے جانے والے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں بھی امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کی معاونت کی تھی۔ جس کے بعد 2011ء میں اُنھیں گرفتار کیا گیا۔

گزشتہ مہینے ایک خاتون نے خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کو درخواست دی تھی کہ جراحی کے ماہر نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر آفریدی نے اس کے بیٹے کا آپریشن کیا جو بعد ازاں طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے دم توڑ گیا لہذا اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ ڈاکٹر آفریدی خیبر ایجنسی میں بطور میڈیکل آفیسر فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

امریکی عہدیدار ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے متعلق پاکستانی حکام سے بات چیت کرتے رہے لیکن پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کے مستقبل کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔

ڈاکٹر آفریدی پشاور جیل میں قید ہے جہاں اس کے وکلا متعدد بار یہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے حکام سے کہہ چکے ہیں کہ اس جیل میں قید شدت پسندوں کی طرف سے ان کے موکل کی جان کو خطرہ ہے۔

رواں ماہ ہی ڈاکٹر آفریدی کے وکلاء کی ٹیم میں شامل وکیل سمیع اللہ آفریدی مبینہ طور پر شدت پسندوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔

ان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی طرف سے سمیع اللہ آفریدی کو دھمکیاں ملی تھیں کہ وہ ڈاکٹر آفریدی کے مقدمے کی پیروی ترک کردیں بصورت دیگر انھیں اور ان کے خاندان کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
XS
SM
MD
LG