فرنٹیئر کور نے بلوچستان میں نو سال سے جاری آپریشن کے دوران ہونے والے اپنے جانی نقصان کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق اس فورس کے 640 اہلکار ہلاک اور 1,800 زخمی ہوئے۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرنٹیئر کور کے لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد نے کہا کہ بلوچستان میں امن فوج کی قربانیوں سے ممکن ہو سکا۔
’’یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے اُن بہت سارے لوگوں کی )قربانیوں) سے جو ہمارے ساتھ آج نہیں ہیں۔۔۔۔ 640 ہلاک اور 1800 سے زائد زخمی ہوئے۔ کچھ ان میں ایسے زخمی ہیں جن کے بازو نہیں ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی آنکھیں نہیں ہیں کچھ ایسے ہیں جو ابھی چلنے سے معذور ہیں۔ یہ ہمارے اُن بھائیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم یہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان میں شورش جاری ہے جس میں عسکریت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز، سرکاری املاک اور بلوچستان میں آباد غیر بلوچ افراد کو نشانہ بنایا گیا۔
بلوچ قوم پرستوں کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ مسلح بلوچوں کی پرتشدد کارروائیوں کو روکنے کے لیے حکومت نے صوبے میں نیم فوجی ادارے فرنٹیئر کور کو وسیع اختیارات دے رکھے ہیں۔
لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد نے میڈیا کو بتایا کہ گزشتہ نو سالوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ’ایف سی‘ نے ہزاروں آپریشن کیے۔
انھوں نے کہا کہ فرنٹیئر کور نے پاک افغان سرحد پر 500 کلومیٹر کے علاقے میں آٹھ فٹ چوڑی اور دس فٹ گہری خندق کھودی ہے جس کی بدولت اب اس سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت اور اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔
حال ہی میں حکومت نے ناراض بلوچوں کو منانے کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کی ہیں اور ساتھ ہی ہتھیار ڈالنے والے بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی اور مراعات کا اعلان بھی کیا ہے۔
حال ہی میں بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے ایک جلاوطن رہنما براہمدغ بگٹی نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔