پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک ہوٹل میں آتشزدگی سے کم ازکم 11 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہو گئے۔
کراچی میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب شارع فیصل پر واقع ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں آتشزدگی کے نتیجے میں کم از کم گیارہ افرد ہلاک اور ستر سے زائد زخمی ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق ہوٹل کے کچن میں تقریباً رات تین بجے آگ لگی جس پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ہوٹل کے ایئر کنڈینشننگ سسٹم کے ذریعے دھواں کمروں میں پھیلا اور کئی افراد گھبراہٹ میں ہوٹل کی بالائی منزلوں سے کود گئے۔
پولیس کے مطابق مرنے والوں میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔ جبکہ چھلانگیں لگانے اور جھلسنے سے ستر سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
ہوٹل کے قریب ہی واقع جناح اسپتال کے ذرائع کے مطابق آگ سے متاثرہ ساٹھ سے زائد افراد کو ابتدائی طبی امداد کے بعد یا تو ڈسچارج کردیا گیا یا انہیں دیگر اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ زخمی ہونے والوں میں تین غیر ملکی بھی ہیں جو ہوٹل میں مقیم تھے۔
ریجنٹ پلازہ میں مقیم پی آئی اے کا عملہ اور کراچی میں جاری قائد اعظم ٹرافی میں حصہ لینے والے مقامی کرکٹرز بھی آگ سے متاثر ہوئے۔
آگ لگنے کے وقت ہوٹل میں صہیب مقصود، عمر امین اور حماد اعظم سمیت کئی اور کھلاڑی بھی موجود تھے۔ کرکٹر یاسم مرتضیٰ نے جان بچانے کے لئے دوسری منزل سے چھلانگ لگائی، جس سے ان کے پاؤں میں فریکچر آیا، جبکہ کرکٹر کرامت علی بھی معمولی زخمی ہوئے۔
پاکستانی کرکٹرز نے امدادی کاموں میں بھی حصہ لیا اور کئی افراد کی جان بچانے میں مدد کی۔
ترجمان پی آئی اے کے مطابق ان کے سولہ کیبن کریو ارکان جن کا تعلق اسلام آباد اور پشاور سے ہے، اس آگ کے نتیجے میں زخمی ہوئے۔
جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق آتشزدگی کے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے تمام گیارہ افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔ اور اسپتال لائے جانے والے تمام افراد کو طبی امداد کی فراہمی کے بعد ڈسچارج کردیا گیا۔
آگ پر قابو پانے کے لئے فائر ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ ایدھی رضاکاروں اور پاک بحریہ نے بھی کارروائی میں حصہ لیا، اور اطلاع ملتے ہی میئر کراچی بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔
تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت میں آگ پر قابو پایا گیا۔
شہر کراچی میں پچھلے پندرہ دنوں میں آتشزدگی کا یہ چوتھا واقعہ ہے اور اس طرح کے واقعات مسلسل فائر ڈیپارٹمنٹ کی استعداد کار بڑھانے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی کے ایم سی میں ڈیزاسٹر منیجمنٹ سیل بنایا گیا تھا، جسے صوبائی حکومت نے اب غیر فعال کردیا ہے۔