توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کے ایک قیدی کو جیل میں پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے زخمی کردیا۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں جمعرات کو پولیس اہلکار نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمد اصغر پر فائرنگ کی جس سے وہ زخمی ہوگیا۔
زخمی قیدی کو جیل کے شفاخانے منتقل کر دیا گیا جہاں اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے جبکہ دیگر پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر فائرنگ کرنے والے اہلکار کو قابو کر کے اس سے اسلحہ چھین لیا۔
راولپنڈی پولیس کے ایس پی سردار غیاث گل نے وائس آف امریکہ کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
"سزائے موت کے قیدیوں کو ان کی کوٹھڑیوں سے تھوڑی دیر چہل قدمی کے لیے باہر نکالا جاتا ہے، تو اسے (مجرم) بھی باہر نکالا تو وہاں سکیورٹی پر مامور اہلکار پہنچ گیا اور اس نے اس پر فائرنگ کی تو باقی گارڈز نے اس پر قابو پالیا جس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔"
انھوں نے بتایا کہ حملہ کرنے والے اہلکار کو گرفتار کر لیا گیا جب کہ اس واقعے کی رپورٹ درج کر کے جیل میں غفلت برتنے والے اہلکاروں کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا ہے۔
سردار غیاث نے بتایا کہ حملہ کرنے والے اہلکار یوسف نے تفتیش کے دوران بتایا کہ اسے خواب آتے تھے کہ وہ اس مجرم کو قتل کر دے لہذا اس نے یہ کارروائی کی۔
70 سالہ محمد اصغر کو 2010 میں ان الزامات کے بعد گرفتارکیا گیا کہ اس نے ایسے خطوط لکھے جس میں اس نے خود کو پیغمبر تحریر کیا۔ بعد ازاں اسے راولپنڈی کی ایک عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔
محمد اصغر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کی ذہنی حالت درست نہیں اور وہ برطانیہ میں نفسیاتی علاج کے مرکز میں زیر علاج رہ چکا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور قانون کے مطابق اس کی سزا موت ہے۔
حالیہ برسوں میں توہین مذہب کے مبینہ طور پر غلط استعمال کی وجہ سے اس میں ترمیم کرنے کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن بظاہر مذہبی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے حکومتیں اس قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم سے گریزاں رہیں۔
توہین مذہب کے قانون میں ترمیم سے متعلق آواز بلند کرنے پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو جنوری 2011 میں ان کے ہی محافظ پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا جب کہ اس کے صرف دو ماہ بعد بین المذاہب ہم آہنگی کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بھی نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
یہ دونوں واقعات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آئے۔