محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس سال بھی صوبہ خیبر پختون خواہ ، پنجاب کے بالائی علاقوں اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں معمول سے 10 فیصد زیادہ بارشوں کی توقع ہے جو سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں۔
محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر محمد حنیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جولائی اور اگست میں مون سو ن بارشیں اُن علاقوں میں بھی زیادہ ہونے کی توقع ہے جو گذشتہ سال سیلاب سے بری طرح متاثر ہو ئے تھے۔
”یہ دونوں مہینے انتہائی اہم ہوں گے کیوں کہ ان میں پاکستان کے بالائی علاقوں میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے سیلاب آنے کا خدشہ رہتا ہے۔“
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر ظفر قاد ر کا کہنا ہے کہ اس سال ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے ضلع کی سطحی پر قائم متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر حکمت عملی مرتب کی گئی ہے ۔
”محکمہ موسمیات کی بارشوں کے بارے میں پیش گوئی کے مطابق اگر بہت زیادہ نقصان بھی ہوا تو 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر نہیں ہوں گے۔“
ڈاکٹر ظفر قاد ر نے کہا کہ اس سال ناصرف ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کے بہتر منصوبہ بندی کی گئی ہے بلکہ گذشتہ سال کے تجربات سے بھی سبق سیکھا گیا ہے ۔ اُنھوں نے کہا کہ آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی ادارے کے علاوہ صوبائی اداروں نے بھی خوراک اور دیگر ضروری اشیاء ذخیر ہ کر لی ہیں ۔
پاکستان میں گذشتہ سال جولائی میں ملکی تاریخ کے بد ترین سیلاب سے لگ بھگ دو کروڑ افراد متاثر ہو ئے تھے جب کہ سڑکوں ، پلوں ، اسکول اور ہسپتالوں سمیت انتظامی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچاتھا۔ عالمی بینک اور حکومت پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق سیلا ب سے ملک کو تقریبا ً 10ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق جولائی 2010ء کے سیلاب سے متاثر ہونے والے دو کروڑ افراد میں سے 90 فیصد اپنے علاقوں میں واپس چلے گئے ہیں لیکن اب بھی ان میں سے بیشتر افراد کی مشکلات مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی ہیں ۔ اپنے علاقوں میں واپس جانے والوں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اس سال سیلاب کے خدشات کے باعث وہ اپنی فصلیں کاشت نہیں کر سکے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: