پاکستان میں گزشتہ سال جولائی میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات پوری طرح ختم بھی نہیں ہوئے کہ اس سال پھر سیلاب کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سال میں بھی گزشتہ سال کی طرح سیلابی مارشیں ہوسکتی ہیں ۔
اٹھارٹی کے سربراہ ظفرقادر کے مطابق رواں سال ملک کے شمالی علاقوں میں معمول سے10 فیصد زائدہونے والی مون سون بارشوں سے سیلاب کا خطرہ سر ابھار رہا ہے ۔اتھارٹی سربراہ نے ضرورت سے زائد بارشوں اور سیلاب سے کم سے کم20اورزیادہ سے زیادہ 60لاکھ افراد کے بے گھر ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر واقعی اس مرتبہ بھی سیلاب آیا تو اس قدر نقصان نہیں ہوگا جتنا 2010میں ہوا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب سے نمٹنے کے لئے اس بار زیادہ بہترانتظامات مکمل ہیں ۔حکام نے یہ بھی یقین دلایا ہے کہ 20لاکھ افرادکو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں امداد فراہم کرنے کے لئے تمام ضروری انتظامات پورے کرلئے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اس سال بلوچستان میں سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں ،دریاوٴں میں پانی کا دباوٴ کم ہے۔ این ڈی ایم اے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ادارے کے پاس پچھلے سال سے زیادہ بجٹ ہے ‘اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیش آئی بھی تو ہوئی تو ہمیں فنڈزکا مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔
جولائی 2010ء میں آنے والے سیلاب سے سترہ سو سے زیادہ افرادہلاک، 2کروڑ10لاکھ افراد متاثرجبکہ مجموعی طور پر10ارب ڈالرکا نقصان ہوا تھا ۔ظفرقادرنے مزید کہا کہ اگرچہ ملک میں معمول کی بارشوں کی اوسط مقدار137اعشاریہ5ملی میٹرہوتی ہے تاہم اس سال اس میں10فیصدکمی کی موسمیاتی پیش گوئی کی گئی ہے لیکن اس کے برعکس ملک کے شمالی علاقوں بارشیں معمول سے 10فیصدزیادہ ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال برف باری تاخیر سے شروع ہوئی جس کی وجہ سے برف ابھی کچی ہے او رجمی نہیں ہے اس وجہ سے کچھ علاقے متاثر ہوسکتے ہیں۔