سیلاب متاثرین کی بحالی کے کاموں میں مصروف فلاحی اداروں نے بین الاقوامی برادری سے فوری امداد کی فراہمی کی اپیل کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر فنڈ فراہم نہ کیے گئے تو امدادی تنظیمیں اپنی سرگرمیاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔
برطانوی تنظیم اوکسفیم کی طرف سے جاری ہونے والے بین الاقوامی امدادی اداروں کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مالی وسائل کی کمی کے باعث سندھ میں 90 لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین کے بیماریوں اورغذائی قلت کا شکار ہونے کا خطرہ ہے جب کہ 50 لاکھ لوگوں کو امداد کی فراہمی کی سرگرمیاں بھی معطل ہونے کا اندیشہ ہے۔
’’مالی وسائل کی عدم فراہمی سے امداد کے منتظر سیلاب متاثرین کے لیے جاری منصوبے بری طرح متاثر ہوں گے جبکہ اوکسفیم دسمبر کے بعد اپنی سرگرمیاں محدود کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس سے 39 لاکھ افراد امداد سے محروم ہو جائیں گے۔‘‘
بیان کے مطابق ’سیو دی چلڈرن‘ کو عالمی اپیل سے اب تک سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے بمشکل 35 فیصد فنڈ ملے ہیں جب کہ ’کیئرانٹرنیشنل پاکستان‘ 91 فیصد کی کمی کے باعث ایسے وقت اپنے ہنگامی صحت کے منصوبے جاری رکھنے پر مجبور ہے جب متاثرہ علاقوں میں بیماریوں کے پھوٹنے اور غذائی قلت کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
’’متاثرہ علاقوں میں فوری طبی امداد کی فراہمی کے لیے ڈیڑھ لاکھ افراد تک پہنچنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا لیکن فنڈ کی کمی کے باعث ان میں سے صرف 10 فیصد تک رسائی ممکن ہو سکی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے بھی مالی وسائل کی کمی کے باعث متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ 35 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کی اییل کے جواب میں اب تک عالمی تنظیم کو محض 9 کروڑ 65 لاکھ ڈالر ملے ہیں۔
’’2011ء کے سیلاب زدگان کے لیے کی گئی اپیل کا 73 فیصد ابھی ملنا باقی ہے اور اگر مزید مالی وسائل نہ ملے تو امدادی سامان چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گا جس میں پینے کا صاف پانی، صحت و صفائی، خوراک، چھت اور طبی سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو بھی مالی وسائل میں کمی کے بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی اپنی امدادی سرگرمیوں کو محدود کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے جبکہ سیلاب کے باعث پیدا ہونے والے بحران کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب بھی لاکھوں لوگ بنیادی ضرورتوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر امدادی سرگرمیاں روک گئیں تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہےـ
’’موسم سرما کی تیزی سے آمد کے باعث چھت سے محروم لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوں گے۔ ہم ایک بار پھر اُسی فراخدلانہ امداد کے منتطر ہیں جس کا مظاہرہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب کے دوران کیا گیا تھا۔‘‘
اگست میں آنے والے سیلابوں نے 90 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے جب کہ دو ماہ گزرنے کے بعد اس وقت بھی تقریباً 16 لاکھ گھر سندھ اور 26 ہزار بلوچستان میں نقصان زدہ ہیں جب کہ سندھ کے 13 اضلاع میں 67 فیصد خوراک کے ذخیرے اور 73 فیصد کھڑی فیصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ مزید برآں جن کاشت کاروں کی زمینیں ابھی تک زیر آب ہیں وہ یقیناً موسمی فصلیں کاشت نہیں کر پائیں گے جس سے ان علاقوں میں خوراک کی کمی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
’’لاگ بھگ 36 لاکھ لوگوں کو فوری طور پر زرعی امداد کی ضرورت ہے تاکہ وہ خوراک اور آمدنی پیدا کرنے کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر سکیں۔
اب تک اقوام متحدہ کی عالمی اپیل کے جواب میں امریکہ نے سب سے زیادہ یعنی ایک کروڑ 34 لاکھ ڈالر فراہم کیے ہیں جو متاثرین کے لیے درکار مالی وسائل کا محض 3.8 فیصد ہے۔
لوگ انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دو تہائی متاثرہ خاندانوں کو سر چھپانے کے لیے ابھی تک کوئی امداد نہیں ملی ہے جب کہ آٹھ لاکھ لوگ اب بھی بے دخل ہیں اور تازہ ترین اندازوں کے مطابق 30 لاکھ لوگوں کو ہنگامی خوراک کی ضرورت ہے۔ بیماریوں میں اضافے نے کم از کم 20 لاکھ بالغ افراد اور 30 لاکھ بچوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ کھڑے پانی اور موسم سرما کی آمد نے ڈینگی، ملیریا اور سانس کی بیماریوں جیسے وبائی امراض کے پھوٹنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگلے چھ ماہ کے دوران ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد حاملہ خواتین کی زندگیاں بچانے کے لیے انھیں ہنگامی طبی امداد کی ضرورت ہوگی۔
سیو دی چلڈرن کے پاکستان میں ڈائریکٹر ڈیوڈ رائیٹ کا کہنا ہے کہ امدادی اداروں کو توقع تھی کہ سیلاب زدگان کی صورت حال اب تک مستحکم ہو چکی ہوگی۔
’’لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بچوں کو موذی امراض لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو بدترین غذائی قلت کا سامنا ہے اور امداد کی عدم فراہمی سے سردی کے موسم میں یہ صورت حال مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘