سیلاب کے سبب بے گھر ہونے والے افراد نوشہرہ کے مضافات میں پاک فوج کی جانب سے قائم کئے جانے والے کیمپوں میں مقیم ہیں۔
پاکستان میں جولائی اور اگست مون سون کے مہینے شمار ہوتے ہیں اوران مہینوں میں شدید بارشیں غیرمعمولی بات نہیں لیکن اس بار شدیدترین بارشوں کے بعد آنے والے بدترین سیلاب کو شاید کبھی نہ بھلایا جاسکے۔
حکومت نے صوبہ پنجاب کے ہزاروں رہائشیوں سے حساس علاقے خالی کرالئے ہیں۔ ان علاقوں میں حد نظر سیلاب کا پانی گھس آیا ہے جس نے مکانات کے ساتھ ساتھ زراعی زمینیں بھی تہس نہس کردی ہیں۔ شمال مغربی پہاڑوں میں بسنے والے تقریباً بیس لاکھ دیہاتی اپنے اپنے علاقوں سے نکل آنے کے باوجود اب تک امداد کے منتظر ہیں جبکہ یہاں بھی بارشوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
فیاض طلعت بھی ان افراد میں شامل ہیں جو چارسدہ کے رہائشی ہیں اور اب بے گھر ہونے کے بعد عارضی طور پر بنائے گئے ایک کیمپ میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان سخت ترین مصیبت میں گھر گیا ہے ۔ یہاں گرمی بھی سخت ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو ہر جگہ پانی ہی پانی ہوتا ہے۔ کیمپ میں کوئی بیت الخلاء بھی نہیں۔ ہر طرف بربادی ہی بربادی ہے۔ ہمارے مکانات گر گئے، مویشی بہہ گئے، بچے بیمار ہیں۔ اب ہم خود کو بچانے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔
بابو لعل زمان کا مکان پشاور کے قریب واقع ہے جو شدید بارشوں کے بعد مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ مکان کے اندر چار چار میٹر پانی بھرگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے پانچ دنوں سے حکومتی امداد کی راہ تک رہے ہیں۔ ان پانچ دنوں میں نہ تو مقامی حکومت کا کوئی ذمے دار آیا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کوئی رہنما۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان سخت مشکلات میں ہے۔
زمان کے گاوٴں کا ہی ایک اور شخص اپنے دکھ درد بیان کرتے ہوئے بولا" اس کے بچے پیاسے ہیں، انہیں پانی کی ضرورت ہے۔ انہی حالات میں مائیں بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ عورتیں بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہیں۔ ہماری مدد کواب تک کوئی نہیں پہنچا ۔"
کیمپ میں پناہ لینے والوں کے لئے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر طاہر شاہ نے کہا کہ انخلاء اورعارضی پناہ کے ساتھ ساتھ سیلاب زدگان کی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ڈاکٹر شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ تر مریض تین تین اور بعض مریض چار چار امراض میں مبتلا ہیں۔ ان میں گیسٹرو، سینے کا انفیکشن اور جلدی بیماریاں شامل ہیں۔ بیماریوں کی اصل وجہ آلودہ پانی ہے۔
سابق وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے رہنما نواز شریف نے حکومت کی جانب سے سیلاب زدگان کو ہر ممکن امداد فراہم نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہایت افسوسناک واقعہ ہے ۔ حکومت کی کارکردگی بالکل بھی اطمینان بخش نہیں۔ اگر حکومت بہتر اقدامات کرتی تویہ بدترین صورتحال ہی نہ پیدا ہوتی۔ حکومت نے مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی قابل قدر کردار ادا نہیں کیا۔
اس تنقید کے باوجود نیشنل ڈزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل، ریٹائرڈ، ندیم احمد حکومتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ قدرتی آفت توقع سے بڑھ کر ہے پھر خراب موسم نے بھی امدادی کاموں میں رکاوٹیں ڈالی ہوئی ہیں۔ سیلاب سے تاریخی تباہی ہوئی ہے۔ حکومت نے بیرونی امداد کے بغیر صورتحال سے نمٹنے کے لئے بہتر حکمت عملی اختیار کی ہے۔ بلاشبہ یہ لائق تحسین کام ہے۔ فوج کے ہزاروں جوان شب وروز امدادی کاموں میں لگے ہوئے ہیں ،انہیں کشتیوں اور ہیلی کاپٹرز کی بھی مدد حاصل ہے۔
حکومتی تخمینے کے مطابق سیلاب سے کم ازکم پندرہ سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ایک لاکھ افراد کو بچا لیا گیا ۔ مگر جیسا کہ سیلاب کی صورتحال بگڑ رہی ہے اور بیماریاں پھوٹنے کاامکان ظاہر کیا جارہا ہے، حکام کو ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
بابو لعل زمان کا مکان پشاور کے قریب واقع ہے جو شدید بارشوں کے بعد مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ مکان کے اندر چار چار میٹر پانی بھرگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے پانچ دنوں سے حکومتی امداد کی راہ تک رہے ہیں۔ ان پانچ دنوں میں نہ تو مقامی حکومت کا کوئی ذمے دار آیا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کوئی رہنما۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان سخت مشکلات میں ہے
مقبول ترین
1