وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے لیے کیے گئے دورہ بھارت کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ بات چیت کے ماحول کو بہتر بنانے کا انحصار بھارتی روئیے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے بڑھ کر کوئی دہشت گردی کا شکار نہیں رہا، ان کے بقول اس بارے میں بھارتی پراپیگنڈے میں اب جان نہیں رہی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپس پہنچنے پر کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان نے اپنا موقف سب کے سامنے واضح انداز میں رکھا اور اس لحاظ سے ان کا یہ دورہ کافی کامیاب ثابت ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پلیٹ فارم پر رہتے ہوئے دو طرفہ مذاکرات یا بات چیت ممکن نہیں تھی۔ اسی لیے اجلاس کے موقع پر پاکستان نے بھارت سے کسی قسم کی دو طرفہ بات چیت کے لیے کوئی درخواست بھی نہیں کی تھی
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا کشمیر سے متعلق موقف بالکل نہیں بدلا اور ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کے بغیر بات چیت اب ممکن نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کا انحصار بھارت پر ہے۔ اور اس کے لیے اسے کشمیر کو حاصل پرانا ریاستی درجہ واپس دینا ہوگا۔ جب کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق ہونا چائیے۔
اپنے بھارتی ہم منصب کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسے بھارتی حکومت کا پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب اس میں دم نہیں رہا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کس طرح دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوا اور نہ صرف پاکستان بلکہ وہ ذاتی طور پر بھی دہشت گردی کا شکار بنے جب 27 دسمبر 2007 کو ان کی والدہ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کو ایک دہشت گرد حملے میں قتل کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو کو دہشت گردی کی آبیاری کرنے والے ملک کا ترجمان قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سے دو طرفہ بات چیت ممکن نہیں۔
گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کا وزراء خارجہ کا اجلاس ختم ہونے کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے خارجہ امور کے وزیرسبرا منیم جے شنکر نے پاکستانی وزیرِ خارجہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، دہشت گردی کی صنعت کا ترجمان، اس کو فروغ اور جواز فراہم کرتا ہے اور افسوس کے ساتھ، یہی اس کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے جموں و کشمیر بھارت کا حصہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔جے شنکر کا کہنا تھا، ’’ دہشت گردی کے شکار دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کے انسداد کی بات نہیں کرتے۔ چنانچہ یہاں آکر یہ ظاہر کرنا کہ ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، منافقانہ الفاظ کا پرچار ہے‘‘۔
تاہم بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر کے بیان کو جذباتیت پر مبنی پراپیگنڈہ قرار دیا اور کہا کہ بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی کی سوچ تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی ہے۔ اور وہ اس نفرت ہی کی بناء پر آنے والے انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس قدر نفرت رکھنے والی حکومت سے بات چیت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟
وزیر خارجہ نے بتایا کہ دورے کے دوران انہیں بھارتی میڈیا سے براہ راست بات کا بھی موقع ملا اور وہاں بھی انہوں نے کشمیر سے متعلق پاکستان کی پالیسی واضح انداز میں رکھی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل بھارت کے سوا تمام ممالک سی پیک کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور اس سے وسطی ایشیاء کے لیے خاص طور پر تجارت کی نئی راہیں کھلیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک معاشی اور اقتصادی طور پر جڑ کر علاقائی اور عالمی امن اور خوشحالی کے لیے زیادہ بہتر کام کرسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم اس سلسلے میں ایک بہترین پلیٹ فارم ہے اور سبھی ممالک اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔