پاکستان نے کہا ہے کہ وہ بھارت سے مذاکرات چاہتا ہے لیکن اس کے لیے کسی طرح کی شرائط قبول نہیں کی جائیں گی۔
وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ مذاکرات کسی ایک ملک کا دوسرے پر احسان نہیں، بلکہ خطے کے امن کے لیے ضروری ہیں تاکہ جنوبی ایشیا عوامی فلاح و بہبود اور اقتصادی ترقی پر توجہ دے سکے۔
لیکن مذاکرات کے لیے پاکستان کسی طرح کی شرائط تسلیم نہیں کرے گا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب بھارت کے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو اس بات کا تعین کرنا چاہیئے کہ وہ بھارت سے مذاکرات چاہتا ہے یا کہ علیحدگی پسند کشمیری رہنماؤں سے۔
واضح رہے کہ بھارت نے اگست میں پاکستان کے ساتھ خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات منسوخ کر دیئے تھے اور اس کی وجہ بات چیت سے قبل دہلی میں کشمیری علیحدگی پسند رہنماؤں سے پاکستانی ہائی کمشنر کی ملاقات بتائی گئی تھی۔
پاکستانی سیکرٹری خارجہ، اعزاز احمد چوہدری کی اپنی بھارتی ہم منصب سوجاتھا سنگھ سے 25 اگست کو اسلام آباد میں ملاقات طے تھی اور اس کا مقصد دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا، تعلقات میں بہتری اور تعاون کو وسعت دینا تھا۔
لیکن بھارت نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ نومبر 2008ء میں ممبئی میں شدت پسندوں کے حملوں کے بعد نئی دہلی نے اسلام آباد سے جامع مذاکرات معطل کر دیے تھے۔
حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت تو شروع ہوئی، لیکن اس کا دائرہٴ اختیار محدود رکھا گیا۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی کے معاملے پر تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر دونوں ممالک کی سرحدی افواج کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلہ میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن گزشتہ ماہ ایسے واقعات میں شدت آئی۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر فائربندی کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام عائد کرتے چلے آرہے ہیں۔