تین سال تک پاکستان کی بری فوج کی قیادت کرنے والے جنرل راحیل شریف نے باضابطہ طور پر کمان نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کرتے ہوئے ملک دشمن قوتوں کو پیغام دیا کہ پاکستان کے خلاف عزائم رکھنے والوں کے مقابلے کے لیے پاکستانی فوج "ایک عظیم ترین دفاعی قوت ہے۔"
عہدے کی معیاد مکمل ہونے پر سبکدوش ہونے والے جنرل راحیل شریف نے منگل کو فوج کی کمان کی علامتی چھڑی جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کی۔
کمان کی تبدیلی کی تقریب راولپنڈی میں آرمی ہاکی گراؤنڈ میں منعقد ہوئی جس میں اعلیٰ سول و فوجی عہدیداروں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی اور اس تقریب کو تمام پاکستانی ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا گیا۔
اس موقع پر بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں جنرل راحیل شریف نے کہا کہ سپہ سالار کے طور پر انھوں نے ہر فیصلے میں قومی مفاد کو مد نظر رکھا اور مقاصد کے حصول کے لیے اپنی اور فوج کی پوری توانائی صرف کی۔
انھوں نے اس تقریر میں پاکستان اور خطے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کے حالات پیچیدہ ہیں اور پاکستان کو درپیش خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ ان کے بقول حالیہ برسوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی قربانیوں کو کسی صورت بھلایا نہ جائے۔
"وقت کا تقاضا ہے کہ پوری قوم اور ادارے یکسوئی کے ساتھ صورتحال کا ادراک کریں، بیرونی خطرات سے بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے اندرونی کمزوریوں خصوصاً جرائم، بدعنوانی اور شدت پسندی کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد لازم ہے۔"
جنرل راحیل شریف کی زیر قیادت ہی فوج نے جون 2014ء میں شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا۔
امریکہ اور مغربی دنیا ایک عرصے سے اس آپریشن کے لیے پاکستان پر زور دیتے آ رہے تھے لیکن پاکستان کا موقف رہا کہ وہ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کارروائی کرے گا۔ تاہم آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری اعتراف کرتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اپنے الوداعی خطاب میں حریف اور ہمسایہ ایٹمی قوت کے لیے انتباہی پیغام بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اقدام سے خطے کا امن خطرے سے دوچار ہے اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس پر توجہ دے۔
"میں بھارت پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری تحمل کی پالیسی کو کسی قسم کی کمزوری سمجھنا خود اس کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن اور ترقی مسئلہ کشمیر کے بغیر ممکن نہیں جس کے لیے عالمی برادری کی خصوصی توجہ ضروری ہے۔"
سبکدوش ہونے والے آرمی چیف نے مسلح افواج کے علاوہ، مرکزی اور صوبائی سیاسی حکومتوں کو تعاون فراہم کرنے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
گزشتہ تقریباً 20 سالوں میں جنرل راحیل شریف فوج کے پہلے سربراہ ہیں جو اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہونے پر رخصت ہوئے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اس وقت کی سیاسی حکومت نے تین سال کے لیے توسیع دی تھی جب کہ اس سے قبل کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف 1999ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نومبر 2007ء تک آرمی چیف کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستانی فوج کے سولہویں سربراہ ہیں۔