پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دو ٹوک الفاظ میں سپریم کورٹ کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کی بجائے چھ ماہ کے لیے جیل جانے کو ترجیح دیں گے۔
بہاولپور یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی طلباء سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ ملک کے دستور میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے اس لیے سوئس حکام کو خط لکھ کر وہ آئین کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے۔
’’اگرمیں خط لکھتا ہوں تو آئین سے انحراف کرتا ہوں ... تو مجھ پر آئین کی شق چھ کا اطلاق ہوتا ہے یعنی میں بغاوت کرتا ہوں اور جس کی سزا موت ہے۔ اگر میں (خط) نہیں لکھتا تو پھر توہین عدالت ہے جس کی سزا چھ مہینے قید ہے۔ اب آپ بتائیں کہ چھ مہینے (کی سزا) بہتر ہے کہ پھانسی کی سزا بہتر ہے۔‘‘
قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کو کالعدم قرار دینے کے بعد عدالت عظمٰی نے دسمبر 2009 ء میں وزیر اعظم گیلانی کو حکم دیا تھا کہ اس متنازع قانون کے تحت صدر زرداری سمیت ہزاروں افراد کے خلاف اندرون ملک اور بیرون ملک ختم کیے گئے بدعنوانی کے مقدمات بحال کریں۔
لیکن پاکستانی وزیر اعظم یہ کہہ کرعدالت کے احکامات پر عمل درآمد سے انکار کرتے آئے ہیں کہ ملک کا آئین صدر کے خلاف اُس وقت تک پرانے و نئے فوجداری مقدمات کھولنے کی اجازت نہیں دیتا جب تک وہ اس منصب پر فائز ہیں۔
عدالت کی حکم عدولی پر سپریم کورٹ کے ایک سات رکنی بنچ نے مسٹر گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت شروع کرکے اُن پر فرد جرم عائد کر رکھی ہے۔
سپریم کورٹ نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے وزیر اعظم کو 21 مارچ تک کی مہلت دے رکھی ہے۔ اگر پاکستانی وزیر اعظم پر توہین عدالت کا جرم ثابت ہو گیا تو سپریم کورٹ انھیں کم از کم چھ ماہ قید کی سزا اور پانچ برس کے لیے پارلیمان کی رکنیت سے نا اہل قرار دے سکتی ہے۔
بہاولپور میں وزیر اعظم گیلانی نے اپنے خطاب میں طالب علموں سے پوچھا کہ آیا اُنھیں سوئس حکام کو خط لکھنا چاہیئے یا نہیں تو ہجوم کی طرف سے ’’نہیں، نہیں‘‘ کی آوازیں آئیں۔
’’اچھا، ہم آپ کا پیغام عدالت کو پہنچائیں گے اور اُنھیں بتائیں گے کہ وہ پارلیمان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں کیونکہ پارلیمان نے ہی صدر کو استثنٰی دیا ہے۔ دنیا میں تمام سربراہان مملکت کو یہ استثنٰی حاصل ہے۔‘‘
صدر زرداری اور اُن کی مقتول بیوی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پراُن کے دوراقتدار میں بدعنوانی سمیت سرکاری رقوم غیر قانونی طور پر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں منتقل کرنے کے الزامات میں پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور بعد میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں اندرون ملک اور سوئس عدالتوں میں مقدمات دائر کیے گئے تھے۔
قومی مفاہمت کے نام پر2007ء میں مسٹر مشرف نے این آر او کے نام سے ایک صدراتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت صدر زرداری سمیت آٹھ ہزار افراد کے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات ختم کر دیے گئے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس قانون کو دو سال قبل کالعدم قرار دے کر پیپلز پارٹی کی حکومت کو تمام مقدمات بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا۔