پشاور —
پاکستان میں حکام نے کہا ہے کہ ایک روز قبل طالبان شدت پسندوں کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی عالمی شہریت یافتہ چودہ سالہ ملالہ یوسف زئی کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور فوری طور پر مزید علاج کے لیے اُسے بیرون ملک بھجوانے کی ضرورت نہیں۔
پشاور کے سی ایم ایچ ہسپتال میں زیر علاج ملالہ کے سر کے قریب لگنے والی گولی اُس کے شانے میں جا کر پھنس گئی تھی، اور فوجی و سول ڈاکٹروں نے منگل کی شب کامیاب آپریشن کر کے اسے نکال لیا تھا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد اس قومی امن ایوارڈ یافتہ لڑکی کی صحت تیزی سے بہتر ہو رہی ہے اور گولی سے اُس کے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کا علاج بھی کامیابی سے جاری ہے، تاہم وہ ابھی نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے۔
ملالہ کے علاج کے جائزہ لینے کے لیے ملک کے ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل خصوصی میڈیکل بورڈ نے بدھ کو ایک ہنگامی اجلاس میں سوات سے تعلق رکھنے والی اس کم عمر لڑکی کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کے امکانات پر غور کیا۔
اجلاس کے بعد وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ تمام ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملالہ کا علاج کامیابی سے جاری ہے اور مزید علاج بھی پاکستان کے اندر ہی ممکن ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کے خیال میں بد قسمتی سے پاکستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات میں زخمی افراد کا علاج کرتے کرتے مقامی طبی ماہرین کو جو تجربہ حاصل ہو چکا ہے وہ دوسرے ملکوں کے ڈاکٹروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اس لیے ملک میں رہ کر ملالہ کا بہترین علاج کیا جا سکتا ہے۔
’’ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کی حالت 70 فیصد خطرے سے باہر ہے مگر اُن کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ علاج ملک کے اندر ہی ممکن ہے، البتہ اُن کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں حتمی رائے لڑکی کو ہوش آنے کے بعد ہی قائم کی جا سکے گی، جس میں دو روز لگ سکتے ہیں۔‘‘
قومی اسمبلی نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کے خلاف بدھ کو متفقہ طور پر مذمتی قرار داد منظور کی۔ ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کر کے قرار داد پیش کی گئی جس میں حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا۔
دریں اثناء پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے بھی ملالہ یوسف زئی کو دی جانے والی طبی امداد کا جائزہ لینے کے لیے بدھ کو پشاور میں سی ایم ایچ اسپتال کا دورہ کیا۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق انھوں نے کمسن لڑکی پر کیے گئے اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ پاکستانی قوم اس لعنت کے خاتمے کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں متحد ہے اور اس کے سامنے سر نہیں جھکایا جائے گا۔
سوات سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ ملالہ یوسف زئی نے وادی پر طالبان شدت پسندوں کے کنٹرول کے دوران فرضی نام سے برطانوی نشریاتی ادارے کی اُردو سروس کے لیے اپنی ڈائری میں شدت پسندی کے خلاف آواز اٹھائی اور لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا تھا۔
اُنھیں حکومت پاکستان نے بعد ازاں امن کا ایوارڈ بھی دیا جبکہ بچوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے لیے بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے بھی وہ نامزد ہوئی تھی۔
لیکن طالبان نے اُنھیں قتل کرنے کی دھمکی دی تھی اور منگل کو سوات کے انتظامی مرکز مینگورہ میں اسکول وین میں گھر واپس آتے وقت دو مسلح افراد نے ان پر گولی چلائی تھی۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر ملالہ زندہ بچ گئی تو اُس پر ایک بار پھر حملہ کیا جائے گا۔
پاکستان اور بیرونی دنیا میں کم عمر ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
پشاور کے سی ایم ایچ ہسپتال میں زیر علاج ملالہ کے سر کے قریب لگنے والی گولی اُس کے شانے میں جا کر پھنس گئی تھی، اور فوجی و سول ڈاکٹروں نے منگل کی شب کامیاب آپریشن کر کے اسے نکال لیا تھا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد اس قومی امن ایوارڈ یافتہ لڑکی کی صحت تیزی سے بہتر ہو رہی ہے اور گولی سے اُس کے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کا علاج بھی کامیابی سے جاری ہے، تاہم وہ ابھی نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے۔
ملالہ کے علاج کے جائزہ لینے کے لیے ملک کے ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل خصوصی میڈیکل بورڈ نے بدھ کو ایک ہنگامی اجلاس میں سوات سے تعلق رکھنے والی اس کم عمر لڑکی کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کے امکانات پر غور کیا۔
اجلاس کے بعد وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ تمام ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملالہ کا علاج کامیابی سے جاری ہے اور مزید علاج بھی پاکستان کے اندر ہی ممکن ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کے خیال میں بد قسمتی سے پاکستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات میں زخمی افراد کا علاج کرتے کرتے مقامی طبی ماہرین کو جو تجربہ حاصل ہو چکا ہے وہ دوسرے ملکوں کے ڈاکٹروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اس لیے ملک میں رہ کر ملالہ کا بہترین علاج کیا جا سکتا ہے۔
’’ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کی حالت 70 فیصد خطرے سے باہر ہے مگر اُن کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ علاج ملک کے اندر ہی ممکن ہے، البتہ اُن کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں حتمی رائے لڑکی کو ہوش آنے کے بعد ہی قائم کی جا سکے گی، جس میں دو روز لگ سکتے ہیں۔‘‘
قومی اسمبلی نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کے خلاف بدھ کو متفقہ طور پر مذمتی قرار داد منظور کی۔ ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کر کے قرار داد پیش کی گئی جس میں حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا۔
دریں اثناء پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے بھی ملالہ یوسف زئی کو دی جانے والی طبی امداد کا جائزہ لینے کے لیے بدھ کو پشاور میں سی ایم ایچ اسپتال کا دورہ کیا۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق انھوں نے کمسن لڑکی پر کیے گئے اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ پاکستانی قوم اس لعنت کے خاتمے کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں متحد ہے اور اس کے سامنے سر نہیں جھکایا جائے گا۔
سوات سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ ملالہ یوسف زئی نے وادی پر طالبان شدت پسندوں کے کنٹرول کے دوران فرضی نام سے برطانوی نشریاتی ادارے کی اُردو سروس کے لیے اپنی ڈائری میں شدت پسندی کے خلاف آواز اٹھائی اور لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا تھا۔
اُنھیں حکومت پاکستان نے بعد ازاں امن کا ایوارڈ بھی دیا جبکہ بچوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے لیے بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے بھی وہ نامزد ہوئی تھی۔
لیکن طالبان نے اُنھیں قتل کرنے کی دھمکی دی تھی اور منگل کو سوات کے انتظامی مرکز مینگورہ میں اسکول وین میں گھر واپس آتے وقت دو مسلح افراد نے ان پر گولی چلائی تھی۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر ملالہ زندہ بچ گئی تو اُس پر ایک بار پھر حملہ کیا جائے گا۔
پاکستان اور بیرونی دنیا میں کم عمر ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔