|
پاکستان میں لاکھوں لوگ مسلسل سیلابی پانیوں کی گزر گاہوں پر زندگی گزار رہے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو لوگوں اور نہ ہی حکومت نے 2022 کے تباہ کن سیلاب سے کوئی سبق سیکھا ہے جس میں 1,737 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ بات جمعرات کے روز ماہرین نے کہی ۔
خیراتی ادارے سیو دی چلڈرن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں مون سون کے موسم کے آغاز سے لے کر اب تک سیلابوں اور شدید بارشوں سے ڈیڑھ سو سےزیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں ہونے والی کل اموات میں نصف سے زیادہ ہے ۔
موسلا دھار بارشیں اس وقت ان علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں جو دو سال قبل بھی سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
سیو دی چلڈرن نے کہا ہے کہ پاکستان میں بارشوں کی وجہ سے 200 بچے زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے ہیں ۔۔ ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لوگ صوبے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہے تھے، جو دو سال قبل بڑے پیمانے پر سیلاب کی لپیٹ میں آیا تھا۔
ادارے کا کہنا ہے کہ "بارشوں اور سیلاب سے سانگھڑ میں کپاس کی 80 فیصد فصلیں تباہ ہو گئیں جو کاشتکاروں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے، اور سینکڑوں مویشی ہلاک ہو ئے ہیں۔"
امدادی ادارے نے مزید کہا کہ وہ ایک مقامی پارٹنرکی مدد سے متاثرہ لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔
پاکستان میں سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر خرم گوندل نے کہا کہ کوئی بھی آفت ہمیشہ بچوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے ۔
انہو ں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سیلاب اور شدید بارشوں کے فوری اثرات دیر پا مسائل نہ بن جائیں۔ صرف صوبہ سندھ میں 72 ہزار سے زیادہ بچوں کی تعلیم میں خلل پڑا ہے۔"
برطانیہ میں قائم ایک اور خیراتی ادارے، اسلامک ریلیف نے بھی کہا کہ پاکستان میں کئی ہفتوں سے جاری موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں وہ کمیوٹنیز ایک بار پھر بے گھر اور مصائب کا شکار ہوئی ہیں جو پہلے ہی 2022 کے سیلاب سے تباہ ہو چکی تھیں اور ابھی تک اپنی زندگیوں اور معاشی بحالی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔
ادارے کے کنٹری ڈائریکٹر آصف شیرازی نے کہا کہ ان کا ادارہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔
ملک کی کلائمیٹ چینج کی وزارت اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان کو اب بھی تعمیر نو کا بڑا کام شروع کرنا ہے کیونکہ حکومت کو ان 9 ارب ڈالرزمیں سے زیادہ تر فنڈز نہیں ملے ہیں جن کا عالمی برادری نے جنیوا میں گزشتہ سال کی ڈونرز کانفرنس میں وعدہ کیا تھا۔
محسن لغاری نے جو کئی برس قبل آبپاشی کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں کہا "ہم نے 2022 کے سیلاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ لاکھوں لوگوں نے دریائی گزر گاہوں پر، جو عام طور پر خشک رہتی ہیں، کچی اینٹوں کے گھر بنالیے ہیں۔"
لغاری نے کہا کہ پاکستان میں مون سون کے موسم میں 2022 کے مقابلے میں کم بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے، جب ماحولیات کی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے سیلابوں سےملکی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا ۔
لغاری نے کہا کہ ،"تاہم سیلابی پانی سے صوبہ پنجاب میں میرے اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان میں کئی دیہات ڈوب گئے ہیں۔ انہوں نےکہا سیلاب سےکاشتکار متاثر ہوئے ہیں ، اور میری اپنی زمین ایک بار پھر سیلابی پانی کی زد میں آ گئی ہے۔
ایک ماہر تعمیرات وسیم احسان کا کہنا ہے کہ پاکستان ابھی تک 2022 جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہےجس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ شہری اور دیہی علاقوں میں گھروں حتیٰ کہ ہوٹلوں تک کی تعمیر میں تعمیراتی قوانین کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2022 میں آنے والے سیلاب نے شمال مغربی علاقوں کو اسلئے نقصان پہنچایا تھا کیونکہ لوگوں نے ایک دریا کا تھوڑا سا رخ موڑنے کے بعد گھر اور ہوٹل تعمیر کر لیے تھے ۔ انہوں نے کہا، "یہی وجہ ہے کہ 2022 میں دریائے سوات نے ایک ہوٹل کو تباہ کر دیا تھا۔"
ملک کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے ایک اہلکار سعد ایدھی نے بھی کہا کہ امدادی کارروائیوں کی نگرانی کے اپنے ماضی کے تجربے کی بنیاد پر، وہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پاکستان کو 2022 جیسے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تو اسے نقصانات کا ہو سکتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم