صحت کے عالمی دن کے موقع پر طبی ماہرین پاکستان میں صحت عامہ کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک 2015ء تک اقوام متحدہ کی طرف اس شعبے کی بہتری کے سلسلے میں مرتب کردہ اہداف حاصل کرتا دیکھائی نہیں دے رہا۔
وزارت صحت کے عہدیداروں کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار میں سے ستر بچے جبکہ زچگی کے دوران ایک لاکھ عورتوں میں سے دو سو پچہتر ہلاک ہو جاتی ہیں۔
زچہ و بچہ کی اموات کی اس قدر زیادہ شرح کی وجہ ان کے مطابق یہ ہے کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ حاملہ عورتوں کو پیدائش کے وقت تربیت یافتہ دائیوں کی خدمات دستیاب نہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزارت صحت کے ڈپٹی ڈائریکڑ جنرل ڈاکٹر ارشد کریم چانڈیو نے کہا کہ پاکستان میں ہر دس میں سے ایک بچہ نمونیا اور اسہال سمیت ایسی بیمایوں سے مر رہا ہے جن سے بچاؤ حفاظتی ٹیکوں یا ادویات سے با آسانی ممکن ہے۔
صحت کے عالمی دن کے موقع پر ماہرین اس تشویش کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ’انٹی بائیوٹک‘ ادویات کے غیر ضروری استعمال سے مریضوں کے مدافعتی نظام پر اس لحاظ سے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کہ بیماریوں کی مزاحمت بڑھ رہی ہے اور ادویات سے افاقے میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مشیر ڈاکٹر خالد سعید بخاری کے مطابق کسی بھی ملک میں ’اینٹی بایوٹک‘ ادویات کا استعمال بیس فیصد تک ہونا چائیے جبکہ پاکستان میں اس کی شرح پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
ڈاکٹر بخاری کا کہنا تھا کہ روز مرہ زندگی اور خاص طور پر ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کی صورتحال نہایت غیر تسّلی بخش ہے جو لوگوں کی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
جبکہ وزارت صحت کے عہدیدار ڈاکٹر چانڈیو کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی سطح پر پمز اور پولی کلینک سمیت تمام ہسپتالوں میں خصوصی انفیکشن کنٹرول کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں اور صوبائی سطح پر بھی ان کے قیام کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔