اسلام آباد —
پاکستان میں محکمہ صحت کے حکام نے ضلع سوات میں ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ پر جلد قابو پانے کی توقع کا اظہار کیا ہے۔
طبی ماہرین کی رائے میں مون سون کے دوران درجہ حرارت میں کمی اور بارش کا پانی اکٹھا ہونے سے مچھروں کی افزائش میں اضافہ ڈینگی وائرس کے حالیہ پھلاؤ کی بنیادی وجہ بنا ہے۔
سوات میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کے وسط سے اب تک 2,672 افراد میں ڈینگی وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے، جن میں سے لگ بھگ 1,442 مریض علاج کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں۔
محکمہ صحت کے ڈینگی سیل کے رکن ڈاکٹر حیدر علی نے بتایا کہ ڈینگی وائرس کے باعث پانچ افراد کی موت بھی واقع ہوئی۔
’’اس وقت 219 افراد اسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور 1,001 افراد میں ڈینگی وائرس کی تشخیص تو ہوئی ہے تاہم اُن کی حالت بہتر ہے اور وہ اسپتال میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
صحتِ عامہ سے متعلق ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے وفاقی سطح پر قائم ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر ثمرہ مظہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سوات کی صورتِ حال باعث تشویش ہے مگر صوبائی حکومت اس پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
’’اُنھیں مچھر دانیاں اور کیڑے مار ادویات کی ضرورت تھی، تو ہم نے عالمی ادارہ صحت سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں کام جاری ہے۔‘‘
ڈاکٹر حیدر علی نے بتایا کہ لاہور سے آنے والے طبی ماہرین نے سوات میں متعلقہ عملے کو موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کی تربیت دی، جب کہ ڈینگی وائرس کی تشخیص کے لیے دو مشینیں بھی اسپتال میں نصب کی جا چکی ہیں۔
حیدر علی نے ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ میں اضافے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں پانی کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے لوگ پینے اور کھانا پکانے کے لیے برتنوں میں پانی ذخیرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس میں مچھروں کی افزائش بڑھ گئی ہے۔
’’لیڈی ہیلتھ ورکرز گھروں میں جا کر جب کہ محکمہ صحت کا دیگر عملہ عوامی مقامات پر لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے میں بھی مصروف ہے۔‘‘
اُنھوں نے توقع ظاہر کی کہ مقامی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی بدولت صورتِ حال جلد ہی بہتر ہو جائے گی۔
طبی ماہرین کی رائے میں مون سون کے دوران درجہ حرارت میں کمی اور بارش کا پانی اکٹھا ہونے سے مچھروں کی افزائش میں اضافہ ڈینگی وائرس کے حالیہ پھلاؤ کی بنیادی وجہ بنا ہے۔
سوات میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کے وسط سے اب تک 2,672 افراد میں ڈینگی وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے، جن میں سے لگ بھگ 1,442 مریض علاج کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں۔
محکمہ صحت کے ڈینگی سیل کے رکن ڈاکٹر حیدر علی نے بتایا کہ ڈینگی وائرس کے باعث پانچ افراد کی موت بھی واقع ہوئی۔
’’اس وقت 219 افراد اسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور 1,001 افراد میں ڈینگی وائرس کی تشخیص تو ہوئی ہے تاہم اُن کی حالت بہتر ہے اور وہ اسپتال میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
صحتِ عامہ سے متعلق ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے وفاقی سطح پر قائم ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر ثمرہ مظہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سوات کی صورتِ حال باعث تشویش ہے مگر صوبائی حکومت اس پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
’’اُنھیں مچھر دانیاں اور کیڑے مار ادویات کی ضرورت تھی، تو ہم نے عالمی ادارہ صحت سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں کام جاری ہے۔‘‘
ڈاکٹر حیدر علی نے بتایا کہ لاہور سے آنے والے طبی ماہرین نے سوات میں متعلقہ عملے کو موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے کی تربیت دی، جب کہ ڈینگی وائرس کی تشخیص کے لیے دو مشینیں بھی اسپتال میں نصب کی جا چکی ہیں۔
حیدر علی نے ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ میں اضافے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں پانی کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے لوگ پینے اور کھانا پکانے کے لیے برتنوں میں پانی ذخیرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس میں مچھروں کی افزائش بڑھ گئی ہے۔
’’لیڈی ہیلتھ ورکرز گھروں میں جا کر جب کہ محکمہ صحت کا دیگر عملہ عوامی مقامات پر لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے میں بھی مصروف ہے۔‘‘
اُنھوں نے توقع ظاہر کی کہ مقامی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی بدولت صورتِ حال جلد ہی بہتر ہو جائے گی۔