برطانیہ کی غیر سرکاری امدادی تنظیم ’اوکسفیم‘ نے کہا ہے کہ پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے لاکھوں افراد کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ 2010ء کے اواخر سے اشیا خرونوش کے نرخ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں جس کی وجہ سے پسماندہ گھرانوں کی محدود آمدن پر بوجھ پڑا ہے۔
اوکسفیم کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن 21 ممالک میں شامل ہے جہاں لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں اور ملک کی 36 فیصد آبادی اس مسئلے سے دوچار ہے۔
اس امدادی تنظیم کے اسلام آباد میں ایک عہدے دار مبشر اکرم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ غذا کی کمی کی بڑی وجوہات افراط زر میں مسلسل اضافہ اور گزشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب ہے جس نے ملکی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا۔
”سروے رپورٹس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خاندان جو دن میں تین مرتبہ کھانا کھایا کرتے تھے ان کی اکثریت اب دن میں دو بار کھانا کھا رہی ہے، اور اگر وہ تین بار بھی کھانا کھا رہے ہیں تو یہ اُن کو اتنی غذائیت فراہم نہیں کرتا کہ وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔“
تاہم پاکستان کی حکومت ماضی میں بھی سامنے آنے والے اس نوعیت کے غیر سرکاری جائزوں پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے اور سرکاری عہدے دار ملک میں خوراک کی کمی کے تاثر کی کی نفی کرتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول اس سال بھی ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے تقریباً 50 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو زیادہ تر ایسے علاقوں کو متاثر کیا جہاں لوگوں کے روز گار کا دار و مدار زرعات پر تھا اور مقامی و بین الاقوامی کوششوں کے باوجود متاثرین کی مکمل بحالی ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی نہیں ہو سکی ہے۔
لیکن حالیہ مہینوں کے دوران ملک میں اشیا خر و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا اعتراف خود سرکاری عہدے دار بھی کرتے ہیں جس کے لیے وہ کاروباری طبقے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے ماہ رمضان میں ضروری اشیا کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے دو ارب روپے مالیت کے رعایتی پیکج کا اعلان بھی کیا ہے لیکن یہ سہولت محض سرکاری یوٹیلٹی اسٹورز تک محدود ہے۔
ادھر اوکسفیم کے مطابق پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں پر محیط کوششوں کے بعد بھوک و تنگ دستی کے خلاف مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی تھی لیکن اب ایک مرتبہ پھر ملک میں غذا کی قلت کا شکار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو جلد ہی خطرناک سطح کو چھو سکتا ہے۔
تنظیم نے متنبہ کیا ہے کہ یہ صورت حال بعض موقعوں پر معاشرے میں عدم استحکام اور پرتشدد واقعات کا سبب بھی بنی ہے۔
محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان کی دو تہائی آبادی اپنی ماہانہ آمدن کا کم از کم نصف حصہ خوراک سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے پر خرچ کر رہی ہے اور اشیا خر و نوش کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کے باعث وہ خود کو معاشی طور پر غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔
اوکسفیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت کے لیے ایسی مربوط پالیسی مرتب کرنا ناگزیر ہے جس کے ذریعے ناصرف خوراک کی قیمتوں میں ناجائز اضافے کی روک تھام ممکن ہو بلکہ جو مقامی سطح پر معیشت کو بھی فروغ دے۔