حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی اور خوراک کے بارے میں قائمہ کمیٹی کے رکن ندیم افضل چن نے غیر سرکاری اداروں کے اس جائزے کو مسترد کیا ہے کہ پاکستان کی تقریبا ساٹھ فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے اور یہ صورت حال بھوکے افراد کو شدت پسندی کی طرف راغب کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں انہوں نہ کہا کہ یہ جائزہ اس لیے درست نہیں کہ ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود ہے جو نا صرف مقامی ضرورت کوپورا کرنے کے لیے کافی ہے بلکہ برآمد بھی کی جا سکتی ہے۔
”سابق حکومت کے دور میں ایک خطیر رقم گندم کی درآمد کی جاتی تھی لیکن ہم نے کاشت کار کے لیے گندم کی قیمت پانچ سو سے بڑھا کے نو سو پچاس کر دی جس سے نہ صرف کاشت کار اورعوام کو فائدہ ہوا بلکہ پیدا وار بڑھنے سے گندم کی در آمد پرخرچ ہونے والی خطیر رقم بھی بچ رہی ہے۔“
غیر سرکاری تنظیم ایس ڈی پی آئی کے جائزے کے مطابق 2003ء میں ملک کی تقریباً سینتیس فیصد آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا تھا۔ 2009ء میں اس کا تناسب اڑتالیس فیصد ہو گیا جبکہ حالیہ بدترین سیلاب میں کھڑی فصلیں تباہ ہونے کے بعد اب تقریبا ساٹھ فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔
<!--IMAGE-
گندم کی وافر موجودگی کے باوجود خوراک کی کمی کیوں ہے اس بارے میں تنظیم کے سربراہ عابد سلہری نے ایک انٹرویو میں کہا ” ملک میں پیداوار تو یقینا ہو رہی ہے لیکن اصل مسئلہ عوام کی قوت خرید کا ہے، ہمارے جائزے کے مطابق اسی وجہ سے تو گذشہ سال گندم کی کھپت میں دس فیصد کمی سامنے آئی ہے“
اس سوال پر کہ کیا روٹی کی قیمت بڑھنے سے عوام کے لیے خوراک کا حصول دشوار نہیں ہوا ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جنہیں ان کے مطابق گندم یا خوراک کی کمی کا سامنا نہیں۔ تاھم ندیم افضل کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس پاکستان کے شہری علاقوں میں غریب طبقے کے لیے خوراک کا حصول اس لئے مہنگا ہوا ہے کہ توانائی کے بحران کی وجہ سے کئی صنعتیں بند ہو گئیں اور ان سے وابستہ افراد کا روزگار متاثر ہوا۔
حکمران جماعت کے ممبر کا کہنا ہے کہ حکومت غریب افراد کی مشکلات سے غافل نہیں اور انہیں سہارا دینے کے لیے ہی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے منصوبے شروع کیے گئیہیں.
ایس ڈی پی آئی کے جائزے کے مطابق افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے خوراک کی کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں دیر بالا، دیر زیریں، شانگلہ ،ہنگو، مطفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ بگٹی ،دادو اور کشمور شامل ہیں۔