اسلام آباد —
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس پاکستان میں گردوں کے امراض میں تیزی سے اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جمعرات کو پاکستان میں بھی گردوں کے امراض سے متعلق آگاہی کا عالمی دن منایا گیا۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر منعقد کی جانے والی تقاریب میں گردوں کے امراض سے متعلق ملک میں علاج کی دستیاب سہولتوں اور ان امرض سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے پر زور دیا گیا۔
پاکستان میں گردوں کے امراض پر تحقیق کے ایک مرکز سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے ڈاکٹر پروفیسر فضل اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں ہر سال 27000 ایسے نئے مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے جن کے گردے کام کرنا بند کر دیتے ہیں اور ایسے مریضوں کو زندگی گزارنے کے لیے مصنوعی طریقے سے اپنا خون صاف کروانا پڑتا ہے جسے ڈائلیسس کہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’اگر ان تمام مریضوں کو ڈائلیسس کی سہولت مہیا کی جائے تو 12.6 ارب روپے کا خرچ آئے گا۔ پاکستان جیسا غریب ملک جو اپنے بجٹ کا صرف دو فیصد صحت اور تعلیم پر خرچ کرتا ہے وہ کبھی بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘
پروفیسر فضل اختر نے کہا کہ ایسے افراد جو ذیابیطس اور بلند فشار خون کے عارضے میں مبتلا ہیں انھیں باقاعدگی سے اپنا طبی معائنہ کرانا چاہیئے۔
’’ جن کو بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی بیماری ہے، وہ جن کا وزن زیادہ ہے، وہ لوگ جن کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے، یہ تمام لوگ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنا ٹیسٹ ضرور کروائیں تو اگر ان کو کوئی بیماری ہے اور یہ وقت پر پتا چل جاتا ہے تو یا تو ان کی بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے اور اگر ان کی بیماریوں کا علاج نہیں ہو سکتا ہے تو تدابیر کے ذریعے ان کی بیماری کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔‘‘
سندھ انسٹیویٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد ذیابیطس کے مرض کا شکار ہیں جن میں سے لگ بھگ چالیس فیصد گردوں کے امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جمعرات کو پاکستان میں بھی گردوں کے امراض سے متعلق آگاہی کا عالمی دن منایا گیا۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر منعقد کی جانے والی تقاریب میں گردوں کے امراض سے متعلق ملک میں علاج کی دستیاب سہولتوں اور ان امرض سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے پر زور دیا گیا۔
پاکستان میں گردوں کے امراض پر تحقیق کے ایک مرکز سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے ڈاکٹر پروفیسر فضل اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں ہر سال 27000 ایسے نئے مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے جن کے گردے کام کرنا بند کر دیتے ہیں اور ایسے مریضوں کو زندگی گزارنے کے لیے مصنوعی طریقے سے اپنا خون صاف کروانا پڑتا ہے جسے ڈائلیسس کہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’اگر ان تمام مریضوں کو ڈائلیسس کی سہولت مہیا کی جائے تو 12.6 ارب روپے کا خرچ آئے گا۔ پاکستان جیسا غریب ملک جو اپنے بجٹ کا صرف دو فیصد صحت اور تعلیم پر خرچ کرتا ہے وہ کبھی بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘
پروفیسر فضل اختر نے کہا کہ ایسے افراد جو ذیابیطس اور بلند فشار خون کے عارضے میں مبتلا ہیں انھیں باقاعدگی سے اپنا طبی معائنہ کرانا چاہیئے۔
’’ جن کو بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی بیماری ہے، وہ جن کا وزن زیادہ ہے، وہ لوگ جن کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے، یہ تمام لوگ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنا ٹیسٹ ضرور کروائیں تو اگر ان کو کوئی بیماری ہے اور یہ وقت پر پتا چل جاتا ہے تو یا تو ان کی بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے اور اگر ان کی بیماریوں کا علاج نہیں ہو سکتا ہے تو تدابیر کے ذریعے ان کی بیماری کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔‘‘
سندھ انسٹیویٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد ذیابیطس کے مرض کا شکار ہیں جن میں سے لگ بھگ چالیس فیصد گردوں کے امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔