پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نگران ادارے ’ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)‘ کے چیئرمین جاوید لغاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پانچ ہزار سے زائد پاکستانی اسکالرز اور طالب علم اس وقت امریکہ سمیت دنیا کے 30 ممالک میں سرکاری اخراجات پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگراُن کے ادارے کے اختیارات کو تقسیم کر دیا گیا تو نا صرف ان سب افراد کے لیے بیرون ملک اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا بلکہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر شاید وہ کبھی وطن واپس نہ آ پائیں جس سے پاکستان ان ذہین افراد سے محروم ہو جائے گا۔
جاوید لغاری نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایک خود مختار ادارے کے طور پر کام کرتا ہے اور براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہے اس لیے اس کے اختیارات کو کم کرنے یا اسے غیر موثر بنانے سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں حالیہ برسوں میں جو بہتری آئی ہے وہ بھی متاثر ہو گی۔
ایچ ای سی کے چیئرمین نے کہا کہ اُنھیں پاکستان کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی حمایت حاصل ہے اور اُنھوں نے دو اجلاسوں میں حکومت سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ختم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ”دنیا ایک طرف چل رہی ہے، کیا ہماری حکومت الٹی طرف چلے گی۔ ہم تو پوری کوشش کر رہے ہیں اگر وہ ہماری بات سنیں اور سمجھیں تو اس میں سب کی بھلائی ہے اس میں ملک کی بھلائی “۔
ہائیرایجوکیشن کمیشن اراکین پارلیمنٹ اور ممبران صوبائی اسمبلیوں کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال بھی کر رہی ۔ جاوید لغاری نے بتایا کہ ایچ ای سی کے خاتمے کے بعد شاید کوئی اور ادارہ اتنی افادیت کے ساتھ ڈگریوں کی چھان بین نہ کرسکے اور اس عمل میں سالوں لگ جائیں۔
سابق وفاقی وزیر اور 'ہائیر ایجوکیشن کمیشن' کے بانی چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن نے بھی کہا ہے کہ ایچ ای سی کے اختیارات کی منتقلی سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو نقصان پہنچے گا۔
گذشتہ ہفتے وفاقی وزیر سینیٹر رضا ربانی نے ایک بیان میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کا عندیہ دیا تھا جس بعد اس ممکنہ اقدام کی مخالفت اوراحتجاج کا سلسلہ شروع ہے۔
دریں اثناء امریکہ نے کہا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے یوا یس ایڈ کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد روکنے سے متعلق مقامی میڈیا کی اطلاعات درست نہیں ہیں ۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ” یوایس ایڈ نے ایچ ای سی کی کوئی امداد نہیں روکی اور نہ ہی اب تک اُس کا ایسا کوئی ارادہ ہے“ ۔
سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ہے یوایس ایڈ کے ذریعہ امریکہ پہلے ہی ایچ ای سی کو 2010ء کے لیے مختص کردہ امداد فراہم کرچکا ہے اور مزید کسی پروگرام کا تعین اس سال کے آخر میں کیا جائے گا جب امریکی کانگریس 2011ء کے لیے امداد کی منظور ی دے گی۔
”یوایس ایڈ سالانہ دوکروڑ امریکی ڈالرامداد کے ساتھ اپنی نوعیت کے سب سے بڑے فل برائیٹ پروگرام کے لیے اعانت فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام پر امریکی محکمہ خارجہ ایچ ای سی کے اشتراک سے عمل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں اشتراک بھی ایچ ای سی کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے“۔