اعلیٰ تعلیم کے نگران وفاقی ادارے ’ہائیر ایجوکیشن کمیشن‘ کی ممکنہ تحلیل کے خلاف گذشتہ کئی روز سے ملک میں اساتذہ، یونیورسٹیوں کے سربراہان ، اسکالرز اور طالب علم سراپا احتجاج ہیں کیوں کہ اُن کے خیال میں اس اقدام سے سرکاری اخراجات پر اندرون ملک اور غیر ملکی تعلیمی اداروں زیر تعلیم پاکستانیوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
جمعہ کوسینیٹ کے اجلاس میں بعض اراکین نے بھی ان خدشات اور تحفظات کو اُجاگر کیا جس پر وفاقی وزیر سینیٹر رضا ربانی نے پہلی مرتبہ حکومت کی طرف سے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تحلیل اور اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کے بارے میں تحفظات بے بنیاد ہیں۔ اُنھوں نے ایوان بالا میں اپنی تقریر میں اس الزام کوبھی رد کیا کہ حکومت جان بوجھ کر ایچ ای سی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
رضاربانی نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کا مسودہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا اور پارلیمان نے متفقہ طور پر اس کی منظور ی دی ہے اس لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے فیصلے پر حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا بلاجواز ہے۔
اُنھوں نے نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے ایچ ای سی کے چیئرمین اور سرکاری یونیورسٹوں کے سربراہان کو اعتماد میں لیا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت اعلیٰ تعلیم کے لیے’ کمیشن فار سٹینڈز آف ہائیر ایجوکیشن ‘ کے نام سے ایک ادارہ بنایا جائے گا اور اس کی تشکیل کرتے وقت اُن سے دوبارہ بھی مشاورت کی جائے۔
وفاقی وزیررضا ربانی نے ان خدشات کو بھی یکسر مسترد کردیا کہ ایچ ای سی کے اختیارات کی تقسیم سے سرکاری خرچ پر بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طالب اور اسکالرز کسی طور متاثر ہوں گے۔
حکومت کا موقف ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے خاتمے کی صورت میں بیرونی ممالک بالخصوص امریکہ سے تعلیم کے فروغ کے لیے ملنے والی امداد بھی متاثر نہیں ہوگی۔ امریکہ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یوایس ایڈ کی طرف سے ایچ ای سی کی امدادکو نہ تو روکا گیا ہے اور نہ امریکہ ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔