پاکستان کے سابق وزیرِسائنس وٹیکنالوجی اور 'ہائیر ایجوکیشن کمیشن' کے سابق بانی چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن نے 'ایچ ای سی' کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے قومی المیہ قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معروف پاکستانی سائنسدان کا کہنا تھا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے ریگولیٹری ادارے کی تحلیل کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے اوراگر اس پر عمل کیا گیا تو ان کے بقول ملک میں اعلیٰ تعلیمی معیار تباہی کا شکار ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے18 ویں آئینی ترمیم کے تحت کئی وزارتوں سمیت ’ہائیر ایجوکیشن کمیشن‘ کے بیشتر اختیارات بھی صوبوں کو منتقل کیے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں 'ایچ ای سی' کے آرڈیننس میں ترامیم متعارف کی جائیں گی جس کے بعد کمیشن کی خود مختار وفاقی حیثیت کو ختم کرکے اس کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو سونپ دئیے جائیں گے جو آئندہ اپنی حدود میں قائم سرکاری جامعات کی فنڈنگ اور دیگر معاملات کی ذمہ دار ہوں گی۔
وی او اے' سے گفتگو میں ڈاکٹر عطاء کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی کو صوبوں کے حوالے کرنے کا منصوبہ ایک احمقانہ قدم ہے کیونکہ ان کے بقول اس کے باعث ملک میں ہر صوبے کی یونیورسٹیز کا علیحدہ تعلیمی معیار اور نظام ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جو صوبائی حکومتیں ابتدائی تعلیمی اداروں اور اسکولوں کا نظام درست طور پر چلانے کی اہل نہ ہوں انہیں جامعات جیسے اعلیٰ اداروں کا انتظام سونپنا دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کے بقول ایچ ای سی کو صوبوں کے حوالے کرنے سے جامعات میں سیاسی مداخلت بڑھ جائے گی اور اس کا نتیجہ مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کی صورت میں سامنے آئے گا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایچ ای سی کے کسی عہدیدار پر پچھلے 10 سال میں آج تک کرپشن اور خلافِ میرٹ کام کرنے کا کوئی الزام نہیں لگا اور ان کے بقول ادارے کے معاملات کی یہی شفافیت ’سیاستدانوں سے برداشت نہیں ہورہی‘۔
انہوں نے کہا کہ سیاستدان 'ایچ ای سی' پر اس لیے برہم ہیں کہ اس ادارے نے ان کی ڈگریاں جعلی قرار دیں اور اس ضمن میں ہر قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے بقول کرپٹ سیاستدان اس ادارے کی خودمختاری سے نالاں ہیں اور اسے تحلیل کرکے سبق سکھانا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی ان کی ڈگریوں پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
ڈاکٹر عطاء کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی پالیسیوں کو'قومی ترقیاتی منصوبوں' سے ہم آہنگ رکھنے کیلئے مرکزی نظام وضع کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں بھارت اور جنوبی کوریا کی مثالیں پیش کیں جہاں ان کے بقول یونیورسٹیز کے حوالے سے 'سینٹرل ویژن اور اسٹریٹیجی' مرکزی سطح پر مرتب کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عطاء نے کہا کہ صوبوں کی نظریں اس ادارے کے فنڈز پر لگی ہوئی ہیں لیکن انہیں اس ضمن میں مایوسی ہوگی کیونکہ ان کے بقول وفاق کی جانب سے صوبوں کو جامعات کیلئے مزید فنڈز فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا ہے۔
انہوں نے 'ایچ ای سی' کو صوبوں کے حوالے کرنے کے فیصلے کو ’تعلیمی خود کشی‘ اور ’خود ساختہ بحران‘ قرار دیتے ہوئے فیصلے کی منسوخی کا مطالبہ بھی کیا۔
ڈاکٹرعطاالرحمٰن کا انٹرویو سنیئے: