رسائی کے لنکس

ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا الزام


’’سیلاب سے متاثرہ ہندو برادری امداد سے محروم ہے‘‘
’’سیلاب سے متاثرہ ہندو برادری امداد سے محروم ہے‘‘

قومی اسمبلی میں اقلیتی ہندو برادری کے نمائندہ اراکین نے سندھ میں ہندو لڑکیوں کوزبردستی مسلمان کرنے اوراُن کے خلاف دیگر سنگین جرائم میں اضافے پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

منگل کو پارلیمان کے ایوان زیریں کے اجلاس میں ایک نکتہ اعتراض پرتقریر کرتے ہوئے رکن اسمبلی کھٹومل جیون داس نےکہا کہ ہندو برادری کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ اغوا برائے تاوان کا ہے۔

’’ہمارے بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے، لوگوں کو اغوا کرکے قتل کیا جاتا ہے۔ سندھ میں اتنے واقعات ہوئے ہیں کہ میں گن بھی نہیں سکتا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اغوا برائے تاوان کا ہے اور دوسرا مسئلہ بچیوں کو اغوا کرکے اُنھیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی ہفتے مٹھی ڈسٹرکٹ سے تقریباً چار پانچ لڑکیوں کو اغوا کرکے مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔‘‘

اُنھوں نے ایوان میں اسلامی جماعتوں کے منتخب نمائندوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بے بسی کے انداز میں اُن سے سوال پوچھا کہ ’’ کیا مذہب اسلام کسی کو زبردستی اپنا مذہب تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‘‘

کھٹومل جیون داس نے انکشاف کیا کہ ہندو برادری کی جن مغوی لڑکیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ان کی عمریں 12 اور16 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ ’’یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اس سے ہماری کمیونٹی میں بہت مایوسی پائی جاتی ہے اس کے لیے ایوان میں قانون سازی کی جائے تاکہ اقلیتوں کے اندر پھیلی ہوئی مایوسی کچھ کم ہو۔‘‘

ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک دوسرے رکن اسمبلی کشن چند پروانی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اقلیتوں کی بہت بری حالت ہے اوراغوا برائے تاوان کے واقعات کے نشانہ بننے والے اکثر خاندان غریب ہوتے ہیں اس لیے ان پر ہونے والے اکثر ایسے مظالم منظر عام پر ہی نہیں آتے۔

انھوں نے اجلاس میں موجود وزیر داخلہ رحمن ملک سے مخاطب ہوتے ہوئے اس صورت حال کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھی اقلیتوں کو امداد سے محروم رکھا جارہا ہے۔

’’وہاں اقلیتوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اقلیتوں کے حوالے سے فوٹو سیشن ہوتا مگر امداد کے حوالے سے انھیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور امداد مسلمانوں کو ملتی ہے۔‘‘

اقلیتی اراکین کے مطالبات پر وزیر داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ وہ صوبائی وزیر اعلٰی کے ساتھ رواں ہفتے کراچی میں ملاقات کریں گے جس میں ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

’’جو زیادتیاں اقلیتوں کے ساتھ ہوئیں وہ پاکستان کے عام شہریوں کے ساتھ بھی ہوتی ہیں جرم کرنے والا نہیں دیکھتا کہ یہ اقلیت ہے یا کون ہے۔‘‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ اُن کی حکومت نے اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانے کا عزم کررکھا ہے اور وہ اقلیتی ارکان سے ملاقات کرنے کے بعد ان کی برادری کو درپیش مسائل کے حوالے سے اپنی رپورٹ اس قومی اسمبلی میں پیش کریں گے۔

XS
SM
MD
LG