پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرکے اُن کی مسلمان لڑکوں سے جبراً شادیوں کے واقعات میں اضافے پر حقوق انسانی کی تنظیموں کے علاوہ سیاسی حلقے بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں خود حکمران پیپلزپارٹی کے اراکین نے انکشاف کیا تھا کہ اندرون سندھ ہر ماہ اس نوعیت کے 15 سے 20 واقعات پیش آ رہے ہیں۔
پارلیمان کے ایوان زیریں کی رکن اور صدر آصف علی زرداری کی بہن ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے اجلاس میں خود اس بات کا انکشاف کیا کہ ہندو لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کر کے مسلمانوں کے ساتھ اُن کی جبرا شادیاں کی جا رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے سندھ کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں نو عمر لڑکیوں کو سبز باغ دکھا کر مسلمان کیا جاتا ہے اور پھر اُنھیں والدین سے بھی نہیں ملنے دیا جاتا، جس پر ہندو برداری سراپا احتجاج ہے۔
’’ان لڑکیوں کو مدارس میں لے جا کر اُن کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور یہ بہت غلط رویہ ہے ... کیوں کہ یہ کچے ذہنوں کی بچیاں ہوتی ہیں، کم عمری میں اُنھیں کوئی سمجھ نہیں ہوتی تو اگر اُنھیں لڑکے ورغلا کر اپنے ساتھ لے جائیں شادیاں کرنے کے بہانے اور پھر اُن کا مذہب بدلا جائے یہ نامناسب بات ہے۔‘‘
حال ہی میں سندھ کے ضلع گھوٹکی کے ایک ہندو خاندان کی نو عمر لڑکی رنکل کماری کا اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کی خبرمنظر عام پر آنے کے بعد یہ مسئلہ قومی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے اور ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے صوبائی و مرکزی حکومتوں سے موثر اقدامات کرنے کے مطالبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رنکل کماری کے والدین کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی کو نوید شاہ نامی نوجوان نے جھانسہ دے کر مسلمان کرنے کے بعد اس سے شادی کر لی۔
مبینہ طور پر ہندو لڑکیوں کی جبراً شادیوں کا سلسلہ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی میاں عبدالحق مٹھا کی سرپرستی میں جاری ہے تاہم اُنھوں نے الزامات کی تردید کی کہ رنکل کماری سمیت ہندو برادری کے دیگر ارکان کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول رنکل کماری کے والدین رابطہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہتی ہے یا نہیں مگر اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
’’اس مہینے میں کوئی 20 خاندان ہمارے پاس مسلمان ہوئے ہیں تو کیا ہم یہ سلسلہ بند کر دیں۔ ٹھیک ہے قانون بنا کر ہمیں کہہ دیں کہ پاکستان میں مسلمان کرنا گناہ ہے۔‘‘
لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک بڑی تنظیم، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سربراہ زہرہ یوسف کہتی ہیں کے خصوصاً صوبہ سندھ میں ہندووں کے مذہب تبدیل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور حکام کو یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ ایک مخصوص عمر کی جوان ہندو لڑکیاں ہی کیوں اسلام قبول کر رہی ہیں۔
’’زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اُنھیں (ہندو لڑکیوں) کو اغواء کیا جاتا ہے اور پھر مولویوں کے پاس لے جا کر کسی سے نکاح پڑھوا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر رہی ہیں تو صرف ایک خاص عمر کی لڑکیاں ہی کیوں، مرد، لڑکے اور بڑی عمر والی خواتین کیوں نہیں کر رہی ہیں۔‘‘
ایک غیر سرکاری تنظیم فافین نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان کے 40 اضلاع میں عمومی طور پر بھی لڑکیوں کی زبردستی شادیوں کے 550 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق سندھ سے ہے۔
اُدھر صوبہ بلوچستان میں ہندو تاجروں کے اغواء برائے تعاون کے واقعات میں اضافے کے بعد اس اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے خاندانوں نے ملک کے دیگر حصوں خصوصاً سندھ کا رخ کرنا شروع کردیا تھا جبکہ بعض نے ہندوستان میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔