بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی ’آئی ایم ایف‘ نے جمعرات کو کہا ہے کہ اس نے پاکستان کو 2013ء میں دیے جانے بیل آؤٹ قرض کے پیکج کا جائزہ مکمل کر کے لگ بھگ 50 کروڑ ڈالر قرض کی قسط جاری کرنے پر اتفاق کیا ہے، مگر ابھی اس فیصلے کی آئی ایم ایف کے بورڈ کی طرف سے منظوری ہونا باقی ہے۔
2013ء میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو 6.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ قرض کی منظوری دی تھی۔ تازہ ترین قسط جاری ہونے کے بعد پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض کی وصولی باقی رہ جائے گی۔
آئی ایم ایف نے ایک بیان میں کہا کہ ’’پاکستانی حکام کے ساتھ تعمیری بات چیت کے بعد آئی ایم ایف مشن نے عملے کی سطح پر ایکسٹینڈڈ فنڈ فیزیبلیٹی کا جائزہ مکمل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘
2013ء میں قرض کا معاہدہ طے پانے کے وقت پاکستان نے خسارے کا شکار سرکاری اداروں اور ملک میں بجلی کی ترسیل کی کمپنیوں کی نجکاری کا وعدہ کیا تھا۔
تاہم آئی ایم ایف کے بیان کے مطابق ان میں سے بہت سے وعدوں پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے۔ اس میں قومی فضائی کمپنی ’پی آئی اے‘ کی نجکاری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
حکومت کی طرف سے گزشتہ ماہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شروع کیے جانے کے بعد کمپنی کے ملازمین کی طرف سے شدید مزاحمت دیکھنے میں آئی۔
اگرچہ حکومت نے پی آئی اے فلائٹ آپریشنز کو جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور پیر کی شام ’لازمی سروسز ایکٹ' بھی نافذ کیا گیا مگر منگل کو کراچی میں احتجاج میں شریک ملازمین کی پولیس سے جھڑپ میں دو افراد ہلاک ہونے کے بعد ملک بھر میں ملازمین نے مظاہرے کیے اور اس ساری صورتحال سے پی آئی اے کے فلائٹ آپریشنز شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی نے جمعرات کو کہا کہ ہڑتال کے دوران پی آئی اے کو 1.8 ارب روپے کا خسارہ ہو چکا ہے اور اب تک 150 سے زائد پروازیں منسوخ ہو چکی ہیں۔
پی آئی اے کے علاوہ پاکستان سٹیل مل اور 66 دیگر سرکاری ادارے خسارے کا شکار ہیں۔ خبررساں ادارے رائیٹرز کے مطابق انہیں چالو رکھنے کے لیے حکومت کو لگ بھگ سالانہ پانچ ارب ڈالر قومی خزانے میں سے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
2013ء میں جب یہ قرض جاری کیا گیا تھا تو پاکستان کی اقتصادی حالت مخدوش تھی اور وہ اس سے پہلے حاصل کردہ قرض کی قسطیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں تھا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کسی مخصوص سرکاری ادارے کا نام لیے بغیر کہا کہ حکومت خسارے کے شکار اداروں میں اصلاحات چاہتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ خسارے کے شکار اداروں میں بنیادی اصلاحات اور ممکنہ شراکت داروں کو شامل کر کے حکومت یہ کوشش کرنا چاہتی ہے کہ ان کو منافع بخش اداروں میں بدلا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ’پی آئی اے‘ کے کسی بھی اہلکار کی ملازمت ختم نہیں کی جا رہی ہے۔
قومی فضائی کمپنی کے چیئرمین ناصر جعفر نے بھی حالیہ کشیدگی کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جسے جمعرات کو منظور کرتے ہوئے شہری ہوا بازی کے ادارے کے سیکرٹری کو پی آئی اے کے چیئرمین کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے۔