اسلام آباد —
پاکستانی حکومت کے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات جمعرات کو کامیابی سے مکمل ہوگئے اور دورے پر آئی ہوئی آئی ایف کی ٹیم نے پاکستان کو مختصر مدت کے لیے پانچ ارب 3 سو کرورڑ ڈالر کا قرضہ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
قرضے کی باقاعدہ منظوری اور اجراء کا اعلان آئی ایم ایف کی ایگزیکیٹو باڈی اپنی مذاکراتی ٹیم کی رپورٹ کا جائزہ لے کر بعد میں کرے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ٹیم نے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کے تحت اقدامات پر ان کے بقول اطمینان کا اظہار کیا۔
ان کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر قیادت پاکستانی مذاکراتی ٹیم نے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے اور توانائی کے شعبے میں مراعات کو ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد میں مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ مراعات کو درجہ بہ درجہ کم کیا جائے گا اور اس کا بوجھ ان صارفین پر نہیں پڑے گا جو کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وہاں اصلاحات متعارف کی جائیں گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اقدامات پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پر نہیں کیے۔
’’ہم نے اقدامات کا اعلان 12 جون کو بجٹ میں کیا تھا اور یہ (آئی ایم ایف کی ٹیم) 19 جون کو پاکستان آئی۔‘‘
عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد کے سربراہ جیفری فرینکس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مجوزہ قرضہ تین سال کے معاہدے پر دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت بجٹ خسارے کو کم کرکے 6 فیصد تک لائے گی اور افراد زر کی شرح میں بھی واضح کمی لائے گی۔
اس سے پہلے سینیٹ میں قائد ایوان اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما راجا ظفرالحق کا وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’ان مراعات کو آہستہ آہستہ کم کرنا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ فوری طور پر ختم کیا جائے اور عوام پر بوجھ ڈالا جائے۔ یہ جو گزشتہ دس سالوں میں جو کچھ کر کے گئے ہیں اب اس کا بوجھ تو حکومت ہی کو اٹھانا ہے۔‘‘
کمزور معیشت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہمیشہ پاکستان سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ان کے بقول غیر منصافانہ مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک ہوتا ہے جہاں ٹیکس دہندگان کی تعداد بہت کم ہے۔
ٹیکس وصول کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق سربراہ ممتاز حیدر رضوی کہتے ہیں۔
’’ہمارے ملک کی جو ضروریات ہیں ان کے لیے ہمیں ریونیو تو پیدا کرنا ہی کرنا ہے۔ ورنہ قرضوں کے پیچھے بھاگنا ہوگا۔ ہمارے یہاں امیر تو ٹیکس دیتے ہی نہیں اور ہم سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیاں لگاتے رہتے ہیں جو کہ انتہائی غیر مناسب ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق پاکستان کو ورلڈ بنک اور ایشین ڈیولپمنٹ بنک سے بھی مجموعی طور پر تقریباً 5 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
ملک کے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور قرضوں کی ادائیگی کے پیش نظر حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
قرضے کی باقاعدہ منظوری اور اجراء کا اعلان آئی ایم ایف کی ایگزیکیٹو باڈی اپنی مذاکراتی ٹیم کی رپورٹ کا جائزہ لے کر بعد میں کرے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ٹیم نے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کے تحت اقدامات پر ان کے بقول اطمینان کا اظہار کیا۔
ان کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر قیادت پاکستانی مذاکراتی ٹیم نے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے اور توانائی کے شعبے میں مراعات کو ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد میں مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ مراعات کو درجہ بہ درجہ کم کیا جائے گا اور اس کا بوجھ ان صارفین پر نہیں پڑے گا جو کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وہاں اصلاحات متعارف کی جائیں گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام اقدامات پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پر نہیں کیے۔
’’ہم نے اقدامات کا اعلان 12 جون کو بجٹ میں کیا تھا اور یہ (آئی ایم ایف کی ٹیم) 19 جون کو پاکستان آئی۔‘‘
عالمی مالیاتی فنڈ کے وفد کے سربراہ جیفری فرینکس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مجوزہ قرضہ تین سال کے معاہدے پر دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت بجٹ خسارے کو کم کرکے 6 فیصد تک لائے گی اور افراد زر کی شرح میں بھی واضح کمی لائے گی۔
اس سے پہلے سینیٹ میں قائد ایوان اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما راجا ظفرالحق کا وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’ان مراعات کو آہستہ آہستہ کم کرنا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ فوری طور پر ختم کیا جائے اور عوام پر بوجھ ڈالا جائے۔ یہ جو گزشتہ دس سالوں میں جو کچھ کر کے گئے ہیں اب اس کا بوجھ تو حکومت ہی کو اٹھانا ہے۔‘‘
کمزور معیشت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہمیشہ پاکستان سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ان کے بقول غیر منصافانہ مراعات کے خاتمے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک ہوتا ہے جہاں ٹیکس دہندگان کی تعداد بہت کم ہے۔
ٹیکس وصول کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق سربراہ ممتاز حیدر رضوی کہتے ہیں۔
’’ہمارے ملک کی جو ضروریات ہیں ان کے لیے ہمیں ریونیو تو پیدا کرنا ہی کرنا ہے۔ ورنہ قرضوں کے پیچھے بھاگنا ہوگا۔ ہمارے یہاں امیر تو ٹیکس دیتے ہی نہیں اور ہم سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیاں لگاتے رہتے ہیں جو کہ انتہائی غیر مناسب ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق پاکستان کو ورلڈ بنک اور ایشین ڈیولپمنٹ بنک سے بھی مجموعی طور پر تقریباً 5 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
ملک کے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور قرضوں کی ادائیگی کے پیش نظر حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔