اسلام آباد —
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے نواز شریف حکومت کی طرف سے اقتصادی شعبے میں کی گئی اصلاحات کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ملک کو کئی معاشی مشکلات کا سامنا ہے تاہم ماضی کی نسبت اس شعبے میں کچھ نا کچھ بہتری کے امکانات موجود ہیں۔
وفد کے 10 روزہ دورے کے اختتام پر ادارے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف امید کرتا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام پر مجموعی شرح نمو پونے تین فیصد ہوگی۔
وفد کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے اب تک کے تمام ضروری اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ مشن کی طرف سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو بھی حوصلہ افزاء قرار دیا گیا۔
آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جفری فرانکس کا اسلام آباد صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا: ’’ہمیں امید ہے کہ حکومت کے اقتصادی پروگرام کے تحت پاکستان کی قومی پیداوار میں بہتری جاری رہے گی اور معاشی استحکام کا ہدف حاصل ہوگا جوکہ عوام کے دیرپا فائدے کے لیے ہے۔‘‘
اس دورے میں وفد نے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور ملک کی معاشی صورتحال اور حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیا۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا یہ مشن آئندہ ماہ کے اواخر میں ایگزیکٹیو بورڈ میں اپنی جائزہ رپورٹ پیش کرے گا جس کی منظوری کے بعد ہی پاکستان کو قرضے کی 55 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کا اجراء ممکن ہو پائے گا۔
رواں سال آئی ایم ایف سے چھ ارب 70 کروڑ ڈالر قرضے کے حصول کے لیے پاکستان حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ معاشی اور توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرے گی جن میں بجلی اور گیس کے نرخوں پر دی جانے والی رعایت میں کمی اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہا تھا کہ توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے حکومت داسو اور دیامیر بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب بجلی گھروں کو تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بھی بروقت ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔
’’اب جو ہمارے گولز ہیں (وہ) اپنے زرمبادلہ، بیرونی سرمایہ کاری اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک نئی پیٹرولیم پالیسی دینا ہے تاکہ اس کی پیداوار بڑھے کیونکہ ملک کا مستقبل اسی میں ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ اب تک 470 ارب روپے کے ٹیکس جمع کیے جا چکے ہیں جو کہ مقررہ ہدف سے 40 ارب زیادہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ رواں سال حکومت بجلی کی سبسڈی کی مد میں 280 ارب روپے ادا کرے گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سبڈی کی رقم پہلے ہی سے حالیہ بجٹ میں مختص کی جا چکی ہے اس لیے اس سے بجٹ میں کسی قسم کی مروجہ اُصولوں سے ہٹ کر کسی رد و بدل کا امکان نہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری خون ریز شدت پسندی سے تباہ حال معیشت کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح گردانتی آئی ہے اور اس سلسلے میں سیاسی اعتبار سے مشکل فیصلے کرنے کا بھی اعلان کر چکی ہے۔
وفد کے 10 روزہ دورے کے اختتام پر ادارے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف امید کرتا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام پر مجموعی شرح نمو پونے تین فیصد ہوگی۔
وفد کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے اب تک کے تمام ضروری اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ مشن کی طرف سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو بھی حوصلہ افزاء قرار دیا گیا۔
آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جفری فرانکس کا اسلام آباد صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا: ’’ہمیں امید ہے کہ حکومت کے اقتصادی پروگرام کے تحت پاکستان کی قومی پیداوار میں بہتری جاری رہے گی اور معاشی استحکام کا ہدف حاصل ہوگا جوکہ عوام کے دیرپا فائدے کے لیے ہے۔‘‘
اس دورے میں وفد نے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور ملک کی معاشی صورتحال اور حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیا۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا یہ مشن آئندہ ماہ کے اواخر میں ایگزیکٹیو بورڈ میں اپنی جائزہ رپورٹ پیش کرے گا جس کی منظوری کے بعد ہی پاکستان کو قرضے کی 55 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کا اجراء ممکن ہو پائے گا۔
رواں سال آئی ایم ایف سے چھ ارب 70 کروڑ ڈالر قرضے کے حصول کے لیے پاکستان حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ معاشی اور توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرے گی جن میں بجلی اور گیس کے نرخوں پر دی جانے والی رعایت میں کمی اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہا تھا کہ توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے حکومت داسو اور دیامیر بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب بجلی گھروں کو تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بھی بروقت ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔
’’اب جو ہمارے گولز ہیں (وہ) اپنے زرمبادلہ، بیرونی سرمایہ کاری اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک نئی پیٹرولیم پالیسی دینا ہے تاکہ اس کی پیداوار بڑھے کیونکہ ملک کا مستقبل اسی میں ہے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ اب تک 470 ارب روپے کے ٹیکس جمع کیے جا چکے ہیں جو کہ مقررہ ہدف سے 40 ارب زیادہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ رواں سال حکومت بجلی کی سبسڈی کی مد میں 280 ارب روپے ادا کرے گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سبڈی کی رقم پہلے ہی سے حالیہ بجٹ میں مختص کی جا چکی ہے اس لیے اس سے بجٹ میں کسی قسم کی مروجہ اُصولوں سے ہٹ کر کسی رد و بدل کا امکان نہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری خون ریز شدت پسندی سے تباہ حال معیشت کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح گردانتی آئی ہے اور اس سلسلے میں سیاسی اعتبار سے مشکل فیصلے کرنے کا بھی اعلان کر چکی ہے۔