اسلام آباد —
عالمی بینک نے حال ہی میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں کہا کہ کاروبار کے فروغ سے متعلق اصلاحات کے اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن میں تین درجے تنزلی ہوئی اور دنیا کے 189 ممالک میں یہ 110 ویں نمبر پر ہے۔
گلوبل ڈوئینگ بسنس 2014ء نامی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں سے چھ نے کاروبار شروع کرنے کے عمل کو آسان بنانے کے لیے اصلاحات مکمل کر لی ہیں تاہم پاکستان ان میں شامل نہیں۔
ماہرین اور پاکستانی کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ اس تاخیر کی وجہ افسر شاہی، سرکاری محکموں کی غیر فعال کارکردگی اور وہاں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے علاوہ حکومت کی سطح پر پالیسیوں میں تسلسل نا ہونا شامل ہیں۔
گندم برآمد کرنے والے ایک بڑے تاجر محمد نجیب بلاگم والا نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تاجروں اور کاروباری شخصیات کی مشکلات کے بارے میں کہا کہ پاکستان میں جو ٹیکس دینے والا ہے اسے زیادہ نوٹس بھیجے جاتے ہیں۔
’’ٹیکس اور ایکسائز (کے نظام) میں کرپشن بڑا مسئلہ ہے۔ دن میں دو گھنٹے کام کرتے ہیں۔ پورٹ پر جہاز (والے) پٹ رہے ہیں۔ دن میں صرف دو سے تین ہزار ٹن مال اترتا ہے۔ بیوروکریٹس کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔‘‘
عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کے لیے 10 مختلف طریقہ کار موجود ہیں جو کہ کم از کم 21 دنوں میں مکمل کیے جاسکتے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ میں یہ عمل صرف ایک پروسیجر کے تحت نصف دن میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس جمع کروانے کا دورانیہ اور طریقہ کار بھی دوسرے ممالک کی نسبت طویل اور پیچیدہ ہے۔
اپنی انتخابی مہم اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ کی اولین ترجیح ملک کی کمزور معیشت کی بحالی ہوگی اور اپنے بین الاقوامی دوروں یا وطن آنے والی غیر ملکی اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتوں میں انھوں نے اس بارے میں معاونت کی درخواست بھی کی۔
حکومت میں شامل عہدیدار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لیے سیاسی اعتبار سے سخت فیصلے بھی کیے جائیں گے جن میں توانائی کے شعبے میں مراعات میں کمی اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ بھی شامل ہیں۔
حال ہی میں وزیر اعظم نے اپنے دورہ امریکہ میں وہاں مقیم پاکستانیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں اور اس سلسلے میں حکومت انھیں مراعات اور سہولتیں فراہم کرے گی۔
تاہم سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کے ممبر عثمان سیف اللہ خان ملک میں سرمایہ کاری میں اضافے سے متعلق کہا کہ بجٹ میں کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا جن کے بارے میں اب ’’کچھ پتا نہیں‘‘۔
’’کچھ رپورٹس ہیں کہ کچھ فیصلوں کو واپس لیا جا رہا ہے۔ تو سرمایہ کاری کی چیزوں کے بارے میں کلیریٹی نہیں۔ چار ماہ پہلے آپ کچھ کہہ رہے تھے اور آج کچھ۔ پھر کارخانے کے لیے معلوم نہیں آپ کو گیس اور بجلی کا کنکشن ملے گا یا نہیں۔ تو سرمایہ کاری تو مشکل ہے۔‘‘
نواز شریف انتظامیہ چھ ارب 70 کروڑ ڈالر قرضے کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کر چکی ہے جس کے تحت حکومت کو اقتصادی و توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا ہوں گی تاکہ بجٹ خسارہ کم کرتے ہوئے سماجی ترقی کے منصوبوں پر اخراجات کو بڑھایا جائے۔
گلوبل ڈوئینگ بسنس 2014ء نامی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں سے چھ نے کاروبار شروع کرنے کے عمل کو آسان بنانے کے لیے اصلاحات مکمل کر لی ہیں تاہم پاکستان ان میں شامل نہیں۔
ماہرین اور پاکستانی کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ اس تاخیر کی وجہ افسر شاہی، سرکاری محکموں کی غیر فعال کارکردگی اور وہاں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے علاوہ حکومت کی سطح پر پالیسیوں میں تسلسل نا ہونا شامل ہیں۔
گندم برآمد کرنے والے ایک بڑے تاجر محمد نجیب بلاگم والا نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تاجروں اور کاروباری شخصیات کی مشکلات کے بارے میں کہا کہ پاکستان میں جو ٹیکس دینے والا ہے اسے زیادہ نوٹس بھیجے جاتے ہیں۔
’’ٹیکس اور ایکسائز (کے نظام) میں کرپشن بڑا مسئلہ ہے۔ دن میں دو گھنٹے کام کرتے ہیں۔ پورٹ پر جہاز (والے) پٹ رہے ہیں۔ دن میں صرف دو سے تین ہزار ٹن مال اترتا ہے۔ بیوروکریٹس کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔‘‘
عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کے لیے 10 مختلف طریقہ کار موجود ہیں جو کہ کم از کم 21 دنوں میں مکمل کیے جاسکتے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ میں یہ عمل صرف ایک پروسیجر کے تحت نصف دن میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس جمع کروانے کا دورانیہ اور طریقہ کار بھی دوسرے ممالک کی نسبت طویل اور پیچیدہ ہے۔
اپنی انتخابی مہم اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ کی اولین ترجیح ملک کی کمزور معیشت کی بحالی ہوگی اور اپنے بین الاقوامی دوروں یا وطن آنے والی غیر ملکی اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتوں میں انھوں نے اس بارے میں معاونت کی درخواست بھی کی۔
حکومت میں شامل عہدیدار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لیے سیاسی اعتبار سے سخت فیصلے بھی کیے جائیں گے جن میں توانائی کے شعبے میں مراعات میں کمی اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ بھی شامل ہیں۔
حال ہی میں وزیر اعظم نے اپنے دورہ امریکہ میں وہاں مقیم پاکستانیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں اور اس سلسلے میں حکومت انھیں مراعات اور سہولتیں فراہم کرے گی۔
تاہم سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کے ممبر عثمان سیف اللہ خان ملک میں سرمایہ کاری میں اضافے سے متعلق کہا کہ بجٹ میں کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا جن کے بارے میں اب ’’کچھ پتا نہیں‘‘۔
’’کچھ رپورٹس ہیں کہ کچھ فیصلوں کو واپس لیا جا رہا ہے۔ تو سرمایہ کاری کی چیزوں کے بارے میں کلیریٹی نہیں۔ چار ماہ پہلے آپ کچھ کہہ رہے تھے اور آج کچھ۔ پھر کارخانے کے لیے معلوم نہیں آپ کو گیس اور بجلی کا کنکشن ملے گا یا نہیں۔ تو سرمایہ کاری تو مشکل ہے۔‘‘
نواز شریف انتظامیہ چھ ارب 70 کروڑ ڈالر قرضے کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کر چکی ہے جس کے تحت حکومت کو اقتصادی و توانائی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا ہوں گی تاکہ بجٹ خسارہ کم کرتے ہوئے سماجی ترقی کے منصوبوں پر اخراجات کو بڑھایا جائے۔