رسائی کے لنکس

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا آغاز


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سینیئر تجزیہ کار پروفیسر سجاد نصیر نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان اور بھارت دونوں ہی کے مفادات ہیں لہذا انھیں مد نظر رکھتے ہوئے ان دونوں ملکوں کو بھی اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

افغانستان میں امن و استحکام اور خطے میں دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے دو روزہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا آغاز ہفتہ کو بھارتی شہر امرتسر میں ہوا جس میں رکن ممالک سمیت 40 سے زائد ملکوں کے نمائندے شریک ہو رہے ہیں۔

بھارت کے ساتھ تعلقات میں حالیہ کشیدگی کے باوجود پاکستان امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے جو کہ پاکستانی عہدیداروں کے بقول افغانستان میں امن و استحکام سے متعلق پاکستان کے سنجیدہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

پانچ سال قبل ہارٹ آف ایشیا۔استنبول پراسس کا آغاز اس نظریے کے تحت کیا گیا تھا کہ جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و سلامتی اور اقتصادی ترقی کے لیے افغانستان کے پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک مل بیٹھ کر اپنے کردار کو مربوط بنانے پر تبادلہ خیال کریں۔

گزشتہ برس اس کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہوا تھا جبکہ رواں سال یہ دو روزہ کانفرنس بھارت میں ہو رہی ہے۔ اس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کر رہے ہیں۔

گوکہ پاکستان کا دفتر خارجہ یہ کہہ چکا ہے کہ کانفرنس کے موقع پر سرتاج عزیز کی بھارتی عہدیداروں سے دوطرفہ ملاقات طے نہیں ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو اس موقع کو باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

سینیئر تجزیہ کار پروفیسر سجاد نصیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں امن و خوشحالی کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں ہی کے مفادات ہیں لہذا انھیں مد نظر رکھتے ہوئے ان دونوں ملکوں کو بھی اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

"ایسے مواقع پر عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ کانفرنس تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی ایک صورت نظر آتی ہے جس میں آپ بات چیت کا کوئی آغاز کر سکتے ہیں جس سے کہ پھر باقاعدہ مذاکرات کی طرف آپ جا سکتے ہیں اور اس سے کشیدگی کم ہو سکتی ہے، تو یہ ایک موقع ہے کہ بات چیت میں تھوڑی پیش رفت ہو جس سے کم ازکم سرحدوں پر تناؤ ختم ہو جائے باقی معاملات پھر بعد میں دیکھے جائیں گے۔"

گزشتہ برس اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھی پاکستانی مشیر خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان بات چیت کے بعد دوطرفہ جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن رواں سال جنوری میں بھارتی فضائی اڈے پر دہشت گرد حملے کے بعد یہ مذاکرات التوا کا شکار ہوئے جو تاحال بحال نہیں ہو سکے۔

بھارت نے اس حملے میں پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور پاکستان نے اس کی تحقیقات میں نئی دہلی کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اپنے ہاں کالعدم تنظیم جیش محمد کے لوگوں کے خلاف کارروائی بھی کی تھی۔

متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے روز فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ چلے آرہے ہیں اور دونوں جانب کے اعلیٰ سطحی رابطے بھی معطل ہیں۔

کشیدہ تعلقات کے تناظر میں ہی بھارت نے گزشتہ ماہ پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد یہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

بھارت اپنے پڑوسی ملک پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کرتا آرہا ہے جسے اسلام آباد مسترد کرتا ہے جب کہ حالیہ کشیدگی کو برانگیخت کرنے والی فائر بندی کی خلاف ورزیوں میں پہل کا الزام بھی دونوں ملک ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف کابل میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے افغان سرزمین کو اس کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ لیکن نئی دہلی اور کابل دونوں ہی اسے مسترد کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG