پاکستانی کشمیر کے تاجروں ، سیاست دانوں اور غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ اس متنازع وادی کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول(ایل او سی) کے آر پار 2008 ء سے جاری تجارت عوامی سطح پر رابطوں کو فروغ دینے اور منقسم خاندانوں کو ملانے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اس دوطرفہ تجارت کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں شریک جموں و کشمیر کے مشترکہ چیمبر آف کامرس کے صدر ذوالفقار عباسی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاک بھارت تعلقات میں اتار چڑھاؤ حتیٰ کہ ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے باوجود بھی اس ایل او سی کے آر پار ہونے والی اس تجارتی سرگرمی میں کوئی خلل نہیں پڑا۔
تاہم اُنھوں نے تجارت کے اس عمل میں تاجر برادری کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے آر پار ہفتے میں صرف دو مرتبہ تجارت اورصرف 21 اشیاء کے تبادلے کی اجازت کو ناکافی قرار دیا ۔ ذوالفقار عباسی نے تبایا کہ اس محدود سرگرمی کے باعث تجارت کا حجم بہت کم ہے ۔اُنھوں نے بتایا کہ دوطرفہ تجارت کے معاہدے کے مطابق اس میں پیسے کا لین دین نہیں ہوتا اور محض مصنوعات اور اجناس کے بدلے ہی اشیاء برآمد یا درآمد کی جاسکتی ہیں۔
تقریب میں شامل تاجروں کا کہنا تھا کہ منقسم کشمیر کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے بینکنگ کی سہولت فراہم کی جائے جس سے اُن کے خیال میں شفاف مالی لین دین کے ذریعے تجارتی سرگرمی میں اضافہ ہوگا۔
کشمیر میں تجارت اور اس کے مقامی آبادی پر اثرات کے موضوع پرتحقیق کرنے والی عائشہ سعید کا کہنا ہے کہ تجارتی حجم اگرچہ کم ہے لیکن یہ سلسلہ کشمیریوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا موقع فراہم کر رہا ہے ۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس تجارت میں شامل زیادہ تر افراد کا تعلق منقسم خاندانوں سے ہے اور اُن کے بقول یہ اقدام مقامی آبادی کو اپنے مسائل پر سوچنے اور اُنھیں اُجاگر کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ کشمیر میں حدبندی لائن کے دونوں طرف جاری تجارت سے ایل او سی پر کشیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کو معمول پرلانے اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان عوامی رابطوں کو فروغ دینے کے عمل کو مستحکم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ بحال ہونا ناگزیر ہے۔
بھارت نے ممبئی میں نومبر 2008ء میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد سے امن مذاکرات کا عمل یکطرفہ طور پر معطل کردیا تھا اور رواں ہفتے بھوٹان میں سارک ممالک کے ایک اجلاس کے موقع پر پاک بھارت خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات میں بات چیت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا لیکن بات چیت کے اس دور کے بعد بھی واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ جامع امن مذاکرات کا سلسلہ کب بحال ہوگا۔