پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی فورسز کی فائرنگ سے دو کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔
اتوار کو دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پرامن اور نہتے احتجاجی مظاہرین کے خلاف بھارتی فورسز کی طرف سے طاقت کا وحشیانہ استعمال قابل مذمت ہے۔
انھوں نے پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے متاثرہ کشمیری خاندانوں سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے بقول جعلی مقدمات میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی گرفتاری کو بھی باعث تشویش قرار دیا۔
مزید برآں تسنیم اسلم نے ایک بار پھر اپنے ملک کے اس موقف کو دہرایا کہ مسئلہ کشمیر کو پائیدار اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق پرامن طور پر حل کیا جانا چاہیئے۔
ایک روز قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت مخالف مظاہرے کے دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک ہو گیا تھا اور حکام نے اس واقعے میں ملوث دو اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات شروع کر دی تھیں۔
یہ مظاہرہ اسی ماہ ایک اور واقعے میں مبینہ طور پر بھارتی فورسز کی فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت اور حریت کانفرنس کے ایک رہنما مسرت عالم بھٹ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا جا رہا تھا۔
کشمیر دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان روز اول ہی سے متنازع اور دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کا باعث چلا آ رہا ہے۔ اس علاقے کو تقسیم کرنے والی حد بندی یعنی لائن آف کنٹرول پر گزشتہ ایک سال کے دوران دونوں ملکوں کی فورسز کے مابین فائرنگ کے واقعات بھی تواتر سے ہوتے رہے ہیں جن میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
مبصرین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ کشمیر میں تازہ کشیدگی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مزید تلخی کا باعث بن سکتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر طلعت وزارت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر بھارت نے کشمیر کی صورتحال پر مثبت انداز نہ اپنایا تو حالات مزید ابتری کی طرف جائیں گے۔
’’بھارتی حکومت نے اپنی جارحیت بند نہیں کی تو(اس سے) مجھے خدشہ ہے کہ کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ اس کے دو امکانات موجود ہیں اس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ (بھارت) احساس کرے کہ یہ متنازع مسئلہ ہے (جس سے) دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ یہ چیز ان کو (پاکستان اور بھارت کو) مذاکرات کی میز پر لے آئے۔‘‘
سری نگر میں یونیورسٹی آف کشمیر کے پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا۔
’’بی جے پی کا ایجنڈا رہا ہے کہ لوگوں (کو باہر سے لا کر) یہاں آباد کر کے (اس) مسئلہ کو حل کیا جائے جس کی وجہ سے یہاں اعتماد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے کشیدگی ہے، کمشیری اس پالیسی کے نفاذ کو روکنے کے لیے یہ (احتجاجی) چیزیں ہو رہی ہیں۔ اور یہ ان (بے جے پی کی طرف ) بیانات کا ردعمل ہے جس کی وجہ سے کشمیر میں ابال نظر آ رہے ہیں۔ "
اتوار کو بھی گو کہ کسی تنظیم کی طرف سے ہڑتال کی کال نہیں دی گئی تھی لیکن ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں لوگوں نے اپنا احتجاج جاری رکھتے ہوئے کاروباری سرگرمیاں بند رکھیں۔