پاکستان میں قانون سازوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کا خیر مقدم کرتے ہوئے خطے میں امن کے لیے پڑوسی ملکوں کی قیادت میں رابطوں کو اچھی کاوش قرار دیا ہے۔
وزیراعظم مودی نے منگل کو اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کر کے رمضان کے مہینے کی مبارکباد دیتے ہوئے اپنے ہاں قید پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان کے بقول یہ لوگ رمضان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گزار سکیں۔
پانچ منٹ تک جاری رہنے والی اس گفتگو میں پاکستانی وزیراعظم نے بھی اپنے ہاں زیر حراست بھارتی ماہی گیروں کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔
حالیہ مہینوں میں دونوں جانب سے تلخ بیانات کے تبادلوں سے جنوبی ایشیا کی ان ہمسایہ ایٹمی قوتوں میں تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو چلے تھے۔
پاکستان میں قانون سازوں کا کہنا ہے کہ بھارتی قیادت کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو کیا جانے والا ٹیلی فون دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخی کو کم کرنے کے لیے اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔
جمعیت علما اسلام (ف) کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ اکرم خان درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
"یہ اچھا قدم ہے، بھارت میں اتنی غربت ہے اور وہ اپنا سارا پیسہ دفاع پر خرچ کر رہا ہے تو اگر بھارت اور پاکستان میں امن ہوگا تو یہ پیسہ ان لوگوں کی بہبود پر خرچ ہوگا۔"
بھارتی وزیراعظم کی اور ان کی کابینہ میں شامل بعض وزرا کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے جب کہ حالیہ دنوں میں ہی پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت ملک میں بدامنی اور انتشار پیدا کرنے میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے ملوث ہونے کا دعویٰ کر چکی ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی طلال چودھری کہتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم کا ٹیلی فونک رابطہ ایک اچھا قدم ہے۔
"پاکستان خطے میں چاہتا ہے ایسا خطہ جہاں دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ موجود ہے، ہم تمام ہمسایوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔"
منگل کو ہی امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کو ٹیلی فون کیا تھا جس میں انھوں نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تناؤ کے ماحول میں اضافے پر انھیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔